نکاح ہوا تھا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی،اس کے بعد آپس میں ناچاقی کی وجہ سےطلاق تک بات پہنچ گی، جب طلاق دینے کا وقت آیا تو طلاق والے پیپر پر دستخط کرنے سے پہلے یہ کہہ دیا تھا کہ میں 2 طلاقیں دیتاہوں،بعد میں پیپر پر دستخط کر دئیے تھے جس پر 3 طلاقیں لکھی ہوئی تھی، اب اس سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں نکاح کے بعد رخصتی اور خلوتِ صحیحہ (کسی مانع کے بغیر تنہائی میں ملاقات) سے پہلے جب مذکورہ شخص نے زبان سے کہاکہ "دو طلاقیں دیتاہوں" تو اس سے عورت پر دو طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے، اور عورت پر عدت گزارنا بھی لازم نہیں ہے،اور مذکورہ شخص پر نصف(آدھا) حق مہر لازم ہے۔ البتہ اگر مذکورہ شخص اسی عورت سے باہمی رضامندی سےدوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں تو از سر نو نئے مہر اور گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح کرسکتے ہیں۔ آئندہ کے لیے مذکورہ شخص کو صرف ایک طلاق کا حق ہوگا۔
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:
"وکل خلوۃ لایمکن معها الوطئ کخلوۃ المریض إلی فلا عدۃ، وفي الخانیة: وکذا لو طلقها قبل خلوة."
(كتاب الطلاق، الفصل الثامن والعشرون: في العدة، ج: 5، ص: 232، رقم: 7734، ط: رشيدية)
بدائع الصنائع میں ہے:
"فإن كانا حرين فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد... ولا يحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية."
(كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ج: 3، ص: 295، ط: دار احياء التراث العربي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144411101437
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن