اگر باکرہ منکوحہ بیوی رخصتی سے پہلے کسی کے ساتھ بھاگ جائے، پھر اس کے بعد چند دن میں واپس آجائے تو ایسی منکوحہ کے لیے حقِ مہر کا حکم کیا ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں اگرایسی کوئی صورت ہو کہ شوہر اسے اپنے پاس رکھنا قبول کرلے (مثلاً: اس نے توبہ کرلی ہو اور شوہر راضی ہوجائے) تو رخصتی کے بعد مکمل مہر دینا لازم ہوگا۔ البتہ اگر شوہر اسے قبول نہ کرے اور طلاق دے کر فارغ کردے اور دونوں کے درمیان خلوتِ صحیحہ بھی نہ ہوئی ہو تو شوہر کے ذمے مقررہ مہر کا نصف (یعنی آدھا مہر) دینا لازم ہے؛ کیوں کہ مہر نفسِ نکاح سے ہی لازم ہوجاتا ہے، اس طرح غلط کام کرنے کی وجہ سے مذکورہ لڑکی گناہ گار تو ہوگی، جس پر اسے سچی توبہ اور استغفار کرنا چاہیے، لیکن اس کا مہر مکمل ساقط نہیں ہوگا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 104):
"(و) يجب (نصفه بطلاق قبل وطء أو خلوة)
(قوله: ويجب نصفه) أي نصف المهر المذكور، وهو العشرة إن سماها أو دونها أو الأكثر منها إن سماه."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200860
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن