بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رخصتی سے پہلے طلاق کو معلق کرنے کا حکم


سوال

میرا نکاح ایک لڑکی سے ہوا ہے، لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ میں نے اس سے کہاکہ ’’اگر تم نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو تم مجھ پر طلاق ہو‘‘، اس میں وقت کا ذکر نہیں کیا تھا کہ اتنے وقت تک تم نے اگر فلان کام کیا تو وغیرہ، پھر اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا، اب  طلاق ہوگئی ہے کہ نہیں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ جب آپ نے نکاح کے بعد رخصتی  سے پہلے بیوی کے یونی ورسٹی میں داخلہ لینے پر طلاق کو معلق کیا، اور بیوی نے رخصتی اور خلوتِ صحیحہ سے پہلے داخلہ لے لیا تو اس  صورت میں  صرف  ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے،  اس صورت میں اگر آپ اسی لڑکی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں از سرِ نو نکاح کرنا ہوگا۔

اور اگر آپ کی بیوی نے رخصتی یا خلوتِ صحیحہ کے بعد یونیورسٹی میں  داخلہ لیا تو بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگی، اس صورت میں آپ عدت کے دوران (تین مرتبہ ایام گزرنے سے پہلے پہلے) قولًا یا فعلًا رجوع کرسکتے ہیں، تاہم گواہ بناکر قولاً رجوع کرنا زیادہ بہتر ہے۔

بہر دو صورت آپ کو آئندہ دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا طلق الرجل امرأته ثلاثًا قبل الدخول بها وقعن عليها، فإن فرق الطلاق بانت بالأولى، ولم تقع الثانية والثالثة".

(الفصل الرابع في الطلاق قبل الدخول، ج:1، ص:373، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح نحو أن يقول لامرأة: إن تزوجتك فأنت طالق أو كل امرأة أتزوجها فهي طالق، وكذا إذا قال: إذا أو متى وسواء خص مصرًا أو قبيلةً أو وقتًا أو لم يخص، وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقًا".

(الفصل الثالث في تعليق الطلاق،  ج:1، ص:420، ط:مكتبه رشيديه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202201154

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں