ایک عورت نے ایک شخص سے کورٹ میں نکاح کیا،ایک ہفتے بعد عورت نے اس شخص سے طلاق مانگی، اس شخص نے عورت کی خواهش پر نہ چاہتے ہوئے تین مرتبہ زبانی اور لکھ کر بھی طلاق دے دی، تو کیا اس صورت میں طلاق هوگئی یا نہیں جبکہ ابهی رخصتی نہیں هوی تھی؟
مذکورہ صورت میں اگرچہ رخصتی نہیں ہوئی تهی تب بهی طلاق واقع ہوگئی، البتہ اتنی تفصیل ہے کہ اگر اس شخص نے ایک ہی جملے میں تین طلاقیں دی تهیں تو تینوں واقع ہوگئیں، اور اگر الگ الگ جملوں میں تین طلاقیں دے تهیں تو عورت کو صرف ایک طلاق بائن واقع ہوئی ، اس دوسری صورت میں وہ فی الوقت بهی دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، جبکہ پہلی صورت میں فورا نکاح جائز نہ ہوگا، جب تک کہ عورت کسی اور شخص سے نہ نکاح کرے اور پهر وہ حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے جب چاہے طلاق دے دے اور اس کے بعد عورت عدت کا دورانیہ گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143604200037
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن