بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رخصتی میں تاخیر کا نکاح پر اثر


سوال

اگر کسی خاص مجبوری کی وجہ سے نکاح کے بعد رخصتی میں تاخیر ہوجائے تو نکاح ٹو ٹ تو نہیں جاتا؟

جواب

جب ایک مرتبہ نکاح منعقد ہو جاتا ہےتو اس وقت تک نکاح متاثر نہیں ہوتا جب تک شوہر طلاق نہ دے/یا قاضی شرعی وجوہ کی بنا پرتنسیخِ نکاح کا حکم نہ دے۔ خود بخود وقت گزرنے سے نکاح نہیں ٹوٹتا، تاہم نکاح ہو جانے کے بعد  حتی الامکان  رخصتی میں بغیر کسی شرعی وجہ اور معقول عذر کےتاخیر نہیں کرنی  چا ہیے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن علي بن أبي طالب، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: " يا علي، ثلاث لاتؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفئًا".

(سنن الترمذي، جلد: 1/ صفحہ: 320/ باب ما جاء في الوقت الأول من الفضل، ط:  شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ينعقد بالإيجاب والقبول وضعًا للمضي أو وضع أحدهما للمضي والآخر لغيره مستقبلًا كان كالأمر أو حالًا كالمضارع، كذا في النهر الفائق. فإذا قال لها: أتزوجك بكذا، فقالت: قد قبلت يتم النكاح وإن لم يقل الزوج قبلت، كذا في الذخيرة".

(الباب الثاني فيما ينعقد به النكاح وما لاينعقد به، جلد:1، صفحہ: 270، ط: دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112201344

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں