بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو القعدة 1446ھ 21 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

رسول اللہ ﷺ پرسب سے پہلی وحی کون سے مہینے میں نازل ہوئی؟


سوال

 رسول اللہ ﷺ پر سب سے پہلی وحی کون سےمہینے میں نازل ہوئی تھی ؟ ماہِ رمضان یا ماہِ رجب یا ماہِ ربیع الاول ؟ نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ﷺ میں ہے : "کہ نبوت سے چھ مہینے پہلے سے آپ ﷺ سچے اور واضح خواب دیکھنے لگے تھے کہ ایک دفعہ اچانک ربیع الاول کی آٹھویں دو شنبہ کے دن جبریل علیہ السلام آئے اور سورہ اقراء کی شروع آیات آپ ﷺ پر لائے اور آپ ﷺ مشرف بہ نبوت ہو گئے۔" (مولانا اشرف علی تھانویؒ، نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ﷺ،ص 52،ط :خانقاہ امدادیہ اشرفیہ کراچی ، 2020ء)

جواب

صورت ِمسئولہ میں آغاز ِوحی کےمہینے اور دن کے بارےمیں مختلف اقوال ہیں ،بعض حضرات فرماتے ہیں کہ سب سے پہلی وحی جونازل ہوئی تھی وہ  ربیع الاول کامہینہ تھا،جیساکہ مولانااشرف علی تھانوی ؒنےاپنی کتاب نشرالطیب فی ذکرالنبی الحبیب ﷺکے اندر ذکرکی ہےاور بعض نے رجب کاذکرکیاہے،لیکن اکثرمفسرین اورمؤرخین فرماتے ہیں کہ سب سے پہلی وحی رمضان میں نازل ہوئی ہے، علامہ سیوطیؒ اوردیگرعلماء نے اس میں تطبیق کرتے ہوئے یہ فرمایاہے  کہ آپ ﷺکوربیع الاول میں سچےخواب آنے شروع ہوئے تھے،یہ سلسلہ چھ ماہ تک جاری رہا،پھررمضان میں قرآن نازل ہوا،لہذاراجح قول کے مطابق آپ ﷺ پر سب سے پہلی وحی بیداری کےحالت میں رمضان کے مہینے میں نازل ہوئی تھی۔

الإتقان میں ہے:

”{إنا أنزلناه في ليلة القدر} فيحتمل أن يكون ليلة القدر في تلك السنة كانت الليلة فأنزل فيها جملة إلى سماء الدنيا ثم أنزل في اليوم الرابع والعشرين إلى الأرض أول: {اقرأ باسم ربك} .

قلت: لكن يشكل على هذا ما اشتهر من أنه صلى الله عليه وسلم بعث في شهر ربيع ويجاب عن هذا بما ذكروه أنه نبئ أولا بالرؤيا في شهر مولده ثم كانت مدتها ستة أشهر ثم أوحي إليه في اليقظة. ذكره البيهقي وغيره.“

(‌‌النوع السادس عشرفي كيفية إنزاله، 151/1، ط: الهيئة المصرية العامة للكتاب)

الأبواب والتراجم لصحيح البخاري میں ہے:

”قال السيوطي: لكن يشكل على هذا ما اشتهر من أنه صلى الله عليه وسلم بعث في شهر ربيع، ويجاب عن هذا بما ذكروه أنه ‌نبئ ‌أولا ‌بالرؤيا ‌في ‌شهر ‌مولده، ‌ثم ‌كانت ‌مدتها ‌ستة ‌أشهر، ‌ثم ‌أوحي ‌إليه ‌في ‌اليقظة، ذكره البيهقي وغيره، انتهى.

وفي "تراجم شيخ الهند": أن حديث ابن عباس في مدارسته صلى الله عليه وسلم مع جبرئيل في شهر رمضان الذي هو أفضل الشهور يظهر منه اختصاص واضح بالوحي برمضان، ويناسب قوله تعالى: {شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن} [البقرة: 185]، فكأن المصنف أشار به إلى البدء الزماني للوحي وأنه في رمضان.“

(کتاب الوحی، 307/2، ط: دار البشائر الإسلامية للطباعة۔بيروت)

الرحیق المختوم میں ہے:

”ولما تكامل له أربعون سنة- وهي رأس الكمال، وقيل: ولها تبعث الرسل- بدأت آثار النبوة تتلوح وتتلمع له من وراء آفاق الحياة، وتلك الآثار هي الرؤيا، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح، حتى مضت على ذلك ستة أشهر، ومدة النبوة ثلاث وعشرون سنة، فهذه الرؤيا جزء من ستة وأربعين جزآ من النبوة- فلما كان رمضان من السنة الثالثة من عزلته صلى الله عليه وسلم بحراء شاء الله أن يفيض من رحمته على أهل الأرض، فأكرمه بالنبوة، وأنزل إليه جبريل بايات من القرآن 

قال ابن حجر: وحكى البيهقي أن مدة الرؤيا كانت ستة أشهر، وعلى هذا فابتداء النبوة بالرؤيا وقع في شهر مولده وهو ربيع الأول، بعد إكماله أربعين سنة، وابتداء وحي اليقظة في رمضان (فتح الباري 1/ 27) .

(2) اختلف المؤرخون اختلافا كبيرا في أول شهر أكرمه الله فيه بالنبوة، وإنزال الوحي، فذهبت طائفة كبيرة إلى أنه شهر ربيع الأول، وذهبت طائفة أخرى إلى أنه رمضان، وقيل هو شهر رجب (انظر مختصر سيرة الرسول للشيخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب النجدي ص 75) ورجحنا الثاني- أي أنه شهر رمضان- لقوله تعالى: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [البقرة: 185] ولقوله تعالى: إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [القدر: 1] ومعلوم أن ليلة القدر في رمضان، وهي المرادة بقوله تعالى: إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةٍ مُبارَكَةٍ، إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ [الدخان: 3] ولأن جواره صلى الله عليه وسلم بحراء كان في رمضا ن، وكانت وقعة نزول جبريل فيهما كما هو معروف.“

(جبریل ینزل بالوحی، 56، ط: بیروت)

روح المعانیمیں ہے:

"والمراد بإنزاله في تلك الليلة إنزاله فيها جملة إلى السماء الدنيا من اللوح فالإنزال المنجم في ثلاث وعشرين سنة أو أقل كان من السماء الدنيا وروي هذا عن ابن جرير وغيره، وذكر أن المحل الذي أنزل فيه من تلك السماء البيت المعمور وهو مسامت للكعبة بحيث لو نزل لنزل عليها.

وأخرج سعيد بن منصور عن إبراهيم النخعي أنه قال: نزل القرآن جملة على جبريل عليه السلام وكان جبريل عليه السلام يجيء به بعد إلى النبي صلى الله عليه وسلم.

وقال غير واحد: المراد ابتداء إنزاله في تلك الليلة على التجوز في الطرف أو النسبة واستشكل ذلك بأن ابتداء السنة المحرم أو شهر ربيع الأول لأنه ولد فيه صلى الله عليه وسلم ومنه اعتبر التاريخ في حياته عليه الصلاة والسلام إلى خلافة عمر رضي الله تعالى عنه وهو الأصح، وقد كان الوحي إليه صلى الله عليه وسلم على رأس الأربعين سنة من مدة عمره عليه الصلاة والسلام على المشهور من عدة أقوال فكيف يكون ابتداء الإنزال في ليلة القدر من شهر رمضان أو في ليلة البراءة من شعبان.

وأجيب بأن ابتداء الوحي كان مناما في شهر ربيع الأول ولم يكن بإنزال شيء من القرآن والوحي يقظة مع الإنزال كان في يوم الاثنين لسبع عشرة خلت من شهر رمضان، وقيل لسبع منه، وقيل لأربع وعشرين ليلة منه، وأنت تعلم كثرة اختلاف الأقوال في هذا المقام فمن يقول بابتداء إنزاله في شهر يلتزم منها ما لا يأباه."

سورۃ الدخان، ج: 13،ص: 111، ط: دار الكتب العلمیة)

بیان القرآن میں ہے:

”ف : قرآن مجید میں دوسری آیت میں آیا ہے کہ ہم نے قرآن مجید شب قدر میں نازل فرمایا اور یہاں رمضان شریف میں نازل کرنا فرمایا ہے سو وہ شب قدر رمضان کی تھی اس لئے دونوں مضمون موافق ہو گئے اور اگر یہ وسوسہ ہو کہ قرآن مجید تو کئی سال میں تھوڑا تھوڑا کر کے حضور پر نازل ہوا ہے پھر رمضان یا شب قدر میں نازل فرمانے کے کیا معنی اس وسوسہ کے جواب کی طرف احقر نے اثناء ترجمہ میں اشارہ کر دیا ہے یعنی لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر دفعۃ رمضان کی شب قدر میں نازل ہو چکا تھا پھر آسمان دنیا سے دنیا میں بتدریج کئی سال میں نازل ہوا پس اس میں بھی تعارض نہ رہا چنانچہ روح المعانی میں حضرت ابن عباس اور ابن جبیر اور حسن رضی اللہ عنہم کا یہ قول نقل کیا ہےانه نزل فيه جملة الى السماء الدنياثمنزل منجما في ثلثو عشرينترجمہ اس کا وہی ہے جو احقر او پر لکھ چکا ہے اور یہی معنی ہیں اس حدیث کے جو امام احمد اور طبرانی نے بروایت واثلہ بن الاسقع کہ جناب رسول اللہ ﷺسے ذکر کی ہے کہ صحف ِ ابراہیم رمضان کی اول شب میں اور تو راۃ چھٹی شب میں اور انجیل تیرہویں شب میں اور قرآن مجید چوبیسویں شب میں اسی رمضان کی نازل کئے گئے کذافی روح المعانی واللہ اعلم ۔“(سورۃ بقرہ ،1/129)

معارف القرآن(مولانا ادریس کاندھلوی ؒ)میں ہے:

”متعدد احادیث میں ہے کہ توراۃ و انجیل اورز بور بھی ماہ رمضان میں اتاری گئیں ۔ یکم رمضان المبارک کو حضرت ابراہیم پر صحیفے نازل ہوئے چھ رمضان کو تو رات بارہ رمضان کو زبور اور اٹھارہ رمضان کو انجیل نازل

ہوئی اور اخیر عشرہ رمضان شب قدر میں قرآن کریم نازل فرمایا، کوہ طور میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے با مرخداد ندی تیس دن عبادت کی، اس مدت کے پورا ہونے پر اللہ نے مزید دس دن کا اضافہ فرما کر چالیس دن پورے کر دیئے جیسا کہ ارشاد ہےوَوَاعَدْنَا مُوسَى ثلْثِينَ لَيْلَةًوَاتْمَمْنْهَا بعشر- چالیس روزے رکھے اعتکاف کیا، اس پر تو رات عطا کی گئی، اللہ نے اپنی ہم کلامی کا شرف عطا کیا ، ہم کلامی اور مناجات کی لذت سے شوق دیدار پیدا ہوا اور درخواست کر ڈالی رب ارنی انظر الَيْكَ جواب ملالَنْ تَرَانِّي وَ لكن انظُرُ إِلَى الجبَلِاس کے بعد تجلیات میں سے ایک بہت ہی قلیل مقدار تجلی کوہ طور پر پڑی توجَعَلَهُ دَكَّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقَاتو یہ جملہ احوال و امور یا کرامات و فضائل جو حضرت موسیٰ کو حاصل ہوئے خدا وند عالم نے ان سب کو رمضان مبارک میں جمع کر دیا۔“

(سورۃ القدر، شب قدراور نزول ِقرآن، ج: 5،ص: 508، ط: مکتبۃ المعارف)

معارف القرآن(مفتی شفیع صاحب ؒ) میں ہے

شیخ زرقانی کے یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے کہ اس طرح دو مرتبہ اُتارنے سے یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ یہ کتاب ہر شک وشبہ سے بالا تر ہے ، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کے علاوہ یہ دو جگہ اور بھی محفوظ ہے ، ایک لوح محفوظ میں اور دوسر بیت عربت میں (مناہل العرفان (۳۹)واللہ اعلم اس پر تقریباً اتفاق ہے کہ قرآن کریم کا دوسرا تدریجی نزول جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر ہوا، اس کا آغاز اس وقت ہوا جب آپ کی عمر چالیس سال تھی ، اس نزول کی ابتداء بھی صحیح قول کے مطابق لیلۃ القدر میں ہوتی ہے ، اور یہی وہ تاریخ تھی جس میں چند سال بعد غزوہ بدرپیش آیا ، لیکن یہ رات رمضان کی کونسی تاریخ میں تھی ؟ اس بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی ، بعض روایا سے رمضان کی سترھویں ، بعض سے اُنیسویں اور بعض سے ستائیسویں شب معلوم ہوتی ہے۔“

(مقدمہ، تاریخ قرآن نزول،ج:1،ص: 25، ط: معارف القرآن کراچی)

وفیہ ایضاً:

”غار ِحراءمیں خلوت گزینی کی مدت میں علماء کااختلاف ہے،صحیحین کی روایت ہے کہ آپ نے ایک ماہ یعنی پورےماہ ِرمضان اس میں  قیام فرمایا،ابن اسحاق نے سیرت اورزرقانی نے شرح واہب میں فرمایا کہ اس سےزیادہ مدت کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے۔“

(سورۃ العلق،وحی نبوت کی ابتداء اور سب سے پہلے وحی،782/8،ط: ادارۃ المعارف القرآن)

ہدایت القرآن میں ہے:

”قرآن اللہ کاکلام ہے،اور اللہ کاکلام اللہ کی صفت ہے،اور صفت اور موصوف کادرجہ ایک ہوتاہے،پس قرآن کی عظمت واہمیت ظاہر ہے،اورزمین پر قرآن کا نزول رمضان میں شروع ہوا ہے،پہلی وحی رمضان کی کسی رات میں غروب آفتاب کے بعد آئی ہے،اس لیے رمضان  کو بھی اہمیت حاصل ہوئی ہےاور اس کے روزے فرض کئے گئے ہیں۔ “

(سورۃ القدر، ج:8،ص: 567، ط: حجاز دیوبند)

سیرۃ حلبیہ میں ہے:

”حراء کو روانگی اور اس کا دن و تاریخ : آنحضرت ﷺ اس دفعہ بھی ہمیشہ کی طرح غار حراء کے لئے روانہ ہوئے آپ کے ساتھ آپ، کے اہل یعنی حضرت خدیجہ بھی تھیں اب یہ کہ وہ اپنی اولا کے ساتھ تھیں یا تنہا ( اس کا صحیح علم نہیں ہے) آخر وہ رات آگئی جس میں اللہ تعالی نے آپ کو نبوت در سالت کا اعزاز عطا فر مایا اور آپ کی پیغمبری کے ذریعہ اپنے بندوں پر احسان فرمایا یہ اس مہینے کی ستر ہوئیں تاریخ تھی، ایک قول ہے کہ چودھویں رات تھی،ایک قول یہ ہے کہ یہ ربیع الاول کی آٹھویں تاریخ تھی اور ایک قول کے مطابق اس مہینے کی تیسری تاریخ تھی،اس بارے میں بعض علماء کہتے ہیں کہ ربیع الاول میں وحی کے نازل ہونے کا جو قول ہے اس سے وہ قول بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ آپ کو چالیس سال پورے ہونے پر نبوت ملی، کیوں کہ صحیح قول کے مطابق آپ کی پیدائش ربیع الاول کے مہینے میں ہی ہوئی ہے یعنی اکثر محمد ثین کا قول میں ہے (اب ربیع الاول میں پیدائش اور ربیع الاول میں ہی وحی کی ابتداء ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ٹھیک چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی جیسا کہ اس بارےمیں ایک قول گزر چکا ہے اور وہ اس روایت سے ثابت ہو جاتا ہے۔

روایت کی روشنی میں ہے جسے حافظ دمیاطی نے اپنی سیرت کی کتاب میں حضرت ابوہریرہ سے بیان کیا ہے کہ ”جو شخص رجب کی سترہویں تاریخ کو روزہ رکھتا ہے اللہ تعالی اس کو ساٹھ مہینوں کے روزوں کا اجر و ثواب دیتا ہے میں وہ دن ہے جس میں جبرئیل آنحضرت ﷺ کے پاس نبوت ورسالت لے کر آئے اور یہی وہ پہلادن ہے جس میں جبرئیل آنحضرت ﷺ پر اترے،“ یہاں تک حافظ دمیاطی کا قول ہے، یعنی یہ وہ پہلا دن ہے کہ اس میں جبرئیل آنحضرت ﷺ پر وحی لے کر نازل ہوئے اس سے پہلے وہ آپ کے پاس نہیں آئے تھے، بعض روایتوں میں آگے آئے گا کہ جبرئیل اس رات کے آخر یعنی سحر کے وقت میں نازل ہوئے تھے اور یہ پیر کی رات تھی، یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ جن جن تاریخوں کے متعلق روایتیں گزری ہیں یہ سب پیر کی راتیں ہی رہی ہوں، چناں چہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال سے فرمایا:پیر کے دن کا روزہ بھی مت چھوڑو کیوں کہ میں پیر کے دن ہی پیدا ہوا اور پیر کے دن ہی مجھے  نبوت ملی۔

نبوت ملنے کا وقت :

 اب یہاں ایک اشکال باقی رہتا ہے کہ نبوت آپ کو رات میں ملی یا دن میں کیونکہ گذشتہ سطروں میں دونوں قول گزرے ہیں مگر اس فرق کی وجہ سے کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا ( کیوں کہ جہاں وقت کہا گیا ہے اس کو ہی کہیں دن کہہ دیا گیا اور کہیں رات) اس لئے کہ سحر کا وقت ایسا ہوتا ہے جو رات سے پہلےہوتا ہے، بعض علماء نے لکھا ہے کہرسول اللہ ﷺ کے پاس جبرئیل پہلے سنیچر کی رات میں آئے اور دوسری مرتبہ اتوار کی رات میں آئے اور پھر پیر کے دن آپ کے پاس نبوت لے کر آپ کے سامنے ظاہر ہوئے جبکہ رمضان کی ستارویں تاریخ تھی اور آپ اس وقت غار حراء میں تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبر ائیل امین آپ کے پاس ( نبوت کی یہ دولت لے کر آئے ۔ “ جہاں تک اس قول کا تعلق ہے کہ آپ کو نبوت رمضان کے مہینے میں ملی اس بارے میں بہت سے علماءکا قول یہی ہےان ہی میں سے ایک امام صر صرفی ہیں جنہوں نے اس شعر میں میں بات کہی ہے:وانت عَلَيْهِ أَرْبَعُونَ فَأَشْرَقَتْ۔شمْسُ النُّبُوَّةِ مِنْهُ فِي رَمَضَانِ۔ترجمہ : جب آپ کی عمر مبارک کا چالیسواں سال آیا تو اس میں سے رمضان کے مہینے میں نبوت کاسورج جگمگانے لگا۔یہ علماء (رمضان کا مہینہ ہونے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے آنحضرت ﷺ کو نبوت سے سرفراز فرمایا تو اس کی ابتداء اس سے ہوئی کہ آپ پر قرآن پاک اتارا گیا (اور قرآن پاک ظاہر ہے رمضان میں اتارا گیا ہے جیسا کہ خود قرآن پاک میں ہی اللہ تعالی کا ارشاد ہے مگر جو علماء اس بات کو نہیں مانتے کہ وحی کی ابتداءر مضان کے مہینے میں ہوئی ان کی طرف سے اس کا یہ جواب دیا جاتا ہے کہ رمضان میں قرآن پاک کے نازل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کو شب قدر میں بیت العزت میں اتارا گیا تھا جو کہ آسمان دنیا میں ہے۔“

(حراء کو روانگی اور اس کادن وتاریخ،ج: 1،ص:111،ط: دار الاشاعت)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101345

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں