بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھوک کی شدت کے باوجود روزہ نہ توڑا، اور انتقال ہوگیا تو کیا آدمی گناہ گار ہوگا یا نہیں؟


سوال

اگر کوئی بھوک پیاس سے مررہا ہو،پھر بھی روزہ نہ توڑے اور انتقال ہوجائے تو کیا گناہ ہوگا یا نہیں ؟

جواب

اگر کسی روزے دار  پر بھوک یاپیاس کا اس قدر غلبہ ہوجائے کہ روزہ نہ توڑنے کی صورت میں جان کے چلے جانے یا کسی مرض کے لاحق ہوجانے کا غالب گمان ہو تو اس صورت میں شریعت نے روزہ توڑنے کی اجازت دی ہے، نیز ایسی صورت میں صرف قضا لازم ہے کفارہ نہیں ۔ اگر کوئی آدمی شدت بھوک یا پیاس کے باوجود روزہ نہیں توڑتا اور شریعت کی اس رخصت پر عمل نہیں کرتا یہاں تک کہ جان چلی جاتی ہے تو وہ گناہ گار ہوگا۔

شریعت نے  تو عام حالات میں بھی جان چلے جانے کے اندیشے سے بقدر ضرورت حرام کھانے کی اجازت دی ہے؛ تا کہ جان بچ سکے اور فقہاء لکھتے ہیں کہ اس صورت میں اگر آدمی اپنی جان بچانے کے بقدر نہیں کھاتا یہاں تک کہ انتقال کرجاتاہے تو گناہ گار ہوگا۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - (4 / 180)

" ومن امتنع عن أكل الميتة حال المخمصة أو صام ولم يأكل حتى مات أثم لأنه أتلف نفسه." 

الاختيار لتعليل المختار - (4 / 185)

" ومن امتنع من أكل الميتة حالة المخمصة ، أو صام ولم يأكل حتى مات أثم."

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (22 / 197)

"وفي النوازل مرض الرجل فقال له الطبيب: أخرج الدم فلم يخرجه حتى مات لايكون مأجورًا ولو ترك الدواء حتى مات لايأثم. وفي الخلاصة: صام وهو غير قادر على الصيام حتى مات أثم. وفي الخانية: جامع ولم يأكل وهو قادر على الأكل كان آثمًا فرض عليه أن يأكل مقدار قوته."

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة - (5 / 240)

"وفي «النوازل»: الرجل إذا ظهر به داء، فقال له الطبيب: قد غلبك الدم فأخرجه، فلم يخرجه حتى مات لا يكون مأخوذاً؛ لأنه لا يعلم يقيناً أن الشفاء فيه، وفيه أيضاً: استطلق بطنه، أو رمدت عينه، فلم يعالج حتى أضعفه ومات بسببه لا إثم عليه؛ فرق بين هذا وبينما إذا جاع ولم يأكل مع القدرة على الأكل حتى مات فإنه يأثم، والفرق: أن الأكل قدر قوته فيه شفاء يتعين، فإذا تركه صار مهلكاً نفسه، ولا كذلك المعالجة"۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144209201031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں