بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے کی حالت میں مشت زنی کا حکم


سوال

 کسی شخص نے روزہ رکھا ہو اور وہ روزہ کی حالت میں، خدانخواستہ مشت زنی جیسا انتہائی ناجائز فعل کر بیٹھے اور اپنے اوپر غسل فرض کرلے، تو کیا اس حالت میں اس کا روزہ باقی رہے گا یا نہیں ؟اور اگر روزہ باقی ہے تو کیا  غسل اس طرح کرے (کلی کرتے وقت حلق میں غرارے سے اور ناک میں پانی ڈالتے وقت حلق میں پانی نا جائے) تو اس طرح غسل ہو جائے گا اور اگر روزہ باقی نہیں رہتا تو اس کا کفارہ کیا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ مشت زنی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے،مگر غسل ہر حال میں واجب  ہو جاتا ہے ، اور غسل کا طریقہ بھی وہی ہے جو عام حالات میں ہوتا ہے (یعنی چوں کہ روزہ ٹوٹ چکا ہے اس وجہ سے غسل میں  کلی کرتے وقت غرارہ بھی کرے گا  اور ناک میں پانی ڈالتے وقت مبالغہ بھی کرے گا )، البتہ اگر کسی شخص کو روزے کی حالت میں احتلام ہو جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا اور روزے کی حالت میں غسل کا طریقہ یہ ہے کہ صرف کلی کرے غرارہ نہ کرے اسی طرح ناک میں پانی ڈالتے وقت بھی مبالغہ نہ کرے۔روزے کی حالت مشت زنی سے صرف قضا لازم ہوتی ہے، کفارہ نہیں ۔ البتہ مذکورہ گناہ سرزد ہونے پر صدق دل سے توبہ واستغفار لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وفرض الغسل) أراد به ما يعم العملي كما مر، وبالغسل المفروض كما في الجوهرة، وظاهره عدم شرطية غسل فمه وأنفه في المسنون كذا البحر، يعني عدم فرضيتها فيه وإلا فهما شرطان في تحصيل السنة (غسل) كل (فمه) ويكفي الشرب عبا؛لأن المج ليس بشرط في الأصح (وأنفه) حتى ما تحت الدرن (و) باقي (بدنه) لكن في المغرب وغيره: البدن من المنكب إلى الألية، وحينئذ فالرأس والعنق واليد والرجل خارجة لغة داخلة تبعا شرعا (لا دلكه) لأنه متمم، فيكون مستحبا لا شرطا، خلافا لمالك (ويجب) أي يفرض (غسل) كل ما يمكن من البدن بلا حرج مرة كأذن و (سرة وشارب وحاجب و) أثناء (لحية) وشعر رأس ولو متبلدا لما في - {فاطهروا} [المائدة: 6]- من المبالغة (وفرج خارج) لأنه كالفم لا داخل؛ لأنه باطن، ولا تدخل أصبعها في قبلها به يفتي.

(قوله: وبالغسل المفروض) أي غسل الجنابة والحيض والنفاس سراج فأل للعهد."

(کتاب الطہارۃ، فرض الغسل، ج: 1، ص: 151،ط: دار الفكر-بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100580

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں