بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزہ کی حالت میں جھوٹ بولنے اور بے ایمانی کرنے کا حکم


سوال

كيا جھوٹ بولنے اور بے ایمانی کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جھوٹ بولنا اور بے ایمانی (خیانت )کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے،ایک مسلمان کے لیے چاہے وہ روزے کی حالت میں ہویا نہ ہو،جھوٹ بولنے اور بے ایمانی کرنے کی اجازت نہیں ہے،اور روزے کی حالت میں اس طرح کے غیرشرعی کاموں کا وبال اور گناہ مزید بڑھ جاتا ہے،لہذا اس سے اجتناب لازمی ہے، تاہم اس سے روزہ ٹوٹتانہیں ہے،بلکہ روزے کے ثواب میں کمی واقع ہوتی ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

" إِنَّ الله َ لَايَهْدِيْ مَنْ هُوَ مُسْرِف كَذَّاب "(سورة غافر:28)

ترجمہ:" اللہ تعالی ایسے شخص کو مقصود تک نہیں پہنچاتا جو (اپنی) حد سے گزرجانے والا،  بہت جھوٹ بولنے والا ہو۔" (بیان القرآن)

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :

"حدثنا ‌عقبة بن مكرم العمي ، حدثنا ‌يحيى بن محمد بن قيس أبو زكير قال: سمعت ‌العلاء بن عبد الرحمن يحدث بهذا الإسناد، وقال: « آية المنافق ‌ثلاث، ‌وإن ‌صام وصلى وزعم أنه مسلم: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان »."

(صحيح مسلم،كتاب الإيمان، ج:1، ص:56، ط:دار طوق النجاة)

 ترجمہ:" منافق کی تین نشانیاں ہیں، اگرچہ وہ روزہ رکھے نماز پڑھے اور یہ گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے: ایک یہ کہ جب بولے تو جھوٹ بولے، دوسرے یہ کہ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے،  تیسرے یہ کہ جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جھوٹ کو اور خیانت (بےایمانی)کرنے کومسلمان کی شان کے خلاف بتا یا ہے،چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

"عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يطبع المؤمن على الخلال كلها ‌إلا ‌الخيانة ‌والكذب ."

(مسند احمد،‌‌حديث أبي أمامة الباهلي الصدي بن عجلان بن عمرو، ج:36، ص:504، ط:مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:"حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مؤمن ہر خصلت پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔"

 حدیثِ پاک میں روزے کی حالت میں جھوٹ بولنےا ور اس پر عمل کرنے والے شخص کے لیے وعیدوارد ہوئی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص روزے کی برکات اور ثمرات سے محروم رہتا ہے،چنانچہ ارشاد نبوی ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من ‌لم ‌يدع ‌قول ‌الزور والعمل به، فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه."

(صحیح البخاري، کتاب الصوم،باب: من لم يدع قول الزور، والعمل به في الصوم، ج:2، ص:673، ط:دارابن كثير)

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:  جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا اور جھوٹے کام کرنے نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس سے بھی کوئی سر وکار نہیں ہے کہ وہ کھانا پینا چھوڑے! (یعنی جب روزہ کا مقصد پورا نہیں کرتا تو بھوکا پیاسا مرنے کی کیا ضرورت ہے ؟)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"والصوم في الشرع: الإمساك عن المفطرات مع اقتران النية به من طلوع الفجر إلى غروب الشمس، وتمامه وكماله باجتناب المحظورات وعدم الوقوع في المحرمات، لقوله عليه السلام: (‌من ‌لم ‌يدع ‌قول ‌الزور والعمل به فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه)."

(سورة البقرة،ج:2، ص:273، ط:دارالكتب المصرية)

عمدۃ القاری میں ہے:

"واختلف العلماء في أن الغيبة والنميمة والكذب: هل يفطر الصائم؟ فذهب الجمهور من الأئمة إلى أنه لا يفسد الصوم بذلك، وإنما التنزه عن ذلك من تمام الصوم."

(كتاب الصوم، باب من لم يدع قول الزور والعمل به في الصوم، ج:10، ص:276، ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409101522

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں