اگر انسان روزے میں صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد سو جائے، اور دوبارہ اٹھنے کے بعد پتہ چلے کہ اُسے احتلام ہو گیا ہے، تو وہ کب تک غسل کر سکتا ہے؟
روزے میں احتلام ہونے یا غسل کرنے دونوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے،لہذا کسی روزہ دار کو سونے کی حالت میں احتلام ہوجائے نیند سے جاگنے کے بعد جتنی جلدی ہوسکے غسل کرلینا چاہیے،بلاوجہ غسل میں تاخیر نہ کرے، تاکہ روزے کا زیادہ سے زیادہ وقت پاکی میں گزرے، نیز غسل میں اتنی تاخیر کرنا کہ نماز قضاہوجائے گناہ ہے،باقی روزہ میں غسلِ جنابت کا وہی طریقہ ہے جو عام حالات میں ہے، البتہ روزہ کی وجہ سے ناک میں اوپر ناک کی نرم ہڈی تک پانی نہیں ڈال سکتا اور نہ غرارہ کرسکتا ہے،(کیوں کہ اس سے حلق کےاندر پانی جانے کا قوی اندیشہ ہے)لہذا صرف کلی کرلے اور ناک میں پانی ڈال لے توغسل صحیح ہوجائے گا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"ولو احتلم في نهار رمضان فأنزل لم يفطره، لقول النبي - صلى الله عليه وسلم - « ثلاث لا يفطرن الصائم: القيء، والحجامة، والاحتلام » ولأنه لا صنع له فيه فيكون كالناسي."
(كتاب الصوم،فصل أركان الصيام، ج:2، ص:91، ط:دارالكتب العلمية)
البحرالرائق ميں هے:
''(قوله: أو احتلم أو أنزل بنظر) أي لا يفطر لحديث السنن لا يفطر من قاء، ولا من احتلم، ولا من احتجم."
(كتاب الصوم ، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ج:2، ص:293، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144409101115
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن