بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے کی حالت میں بیوی بچوں کو بوسہ دینے کا حکم


سوال

كيا روزہ كى حالت میں بیوی اور بچوں کو بوسہ دے سکتے ہیں ؟ اور روزے کی حالت میں میاں بیوی ایک دوسرے سے چپک کے سو سکتے ہیں جس طرح سونے میں ہاتھ جسم کے مختلف حصوں میں ٹچ ہو جاتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ روزے کی حالت میں ہر ایسا کام کرنا جو انسان  کو جماع کے قریب لے جائے وہ مکروہ  ہے۔ اور اگر ایسےعمل کے دوران منی نکل گئی تو روزہ فاسد ہو جائے گا اور قضا لازم آئے گی۔

صورت مسؤلہ میں روزے کی حالت میں بچوں کو بوسہ دینے میں تو کوئی حرج نہیں البتہ بیوی کو بوسہ دینے میں احتیاط کرنی چاہیے اس لیے کہ بیوی کو بوسہ دینا جماع کی طرف لے جا سکتا ہے۔

اسی طرح روزے کی حالت میں میاں بیوی کا ایک بستر میں لیٹنا جائز ہے، تاہم بے لباس لیٹنا یا بغیر حائل کے جسم ملانا، یا اپنے اوپر اعتماد نہ ہونے کے باوجود بوس و کنار کرنا، یا ہونٹوں پر بوسہ لینا یا ایک دوسرے کے اعضاءِ مستورہ کو چھونا مکروہ ہے۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا بأس بالقبلة إذا أمن على نفسه من الجماع والإنزال ويكره إن لم يأمن والمس في جميع ذلك كالقبلة كذا في التبيين.وأما القبلة الفاحشة، وهي أن يمص شفتيها فتكره على الإطلاق، والجماع فيما دون الفرج والمباشرة كالقبلة في ظاهر الرواية. قيل إن المباشرة الفاحشة تكره، وإن أمن هو الصحيح كذا في السراج الوهاج. والمباشرة الفاحشة أن يتعانقا، وهما متجردان ويمس فرجه فرجها، وهو مكروه بلا خلاف هكذا في المحيط. ولا بأس بالمعانقة إذا لم يأمن على نفسه أو كان شيخا كبيرا هكذا في السراج الوهاج".

(كتاب الصوم،الباب الثالث فيما يكره للصائم وما لا يكره،ج:1،ص:200،ط:دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(و) كره (قبلة) ومس ومعانقة ومباشرة فاحشة (إن لم يأمن) المفسد وإن أمن لا بأس.
(قوله: وكره قبلة إلخ) جزم في السراج بأن القبلة الفاحشة بأن يمضغ شفتيها تكره على الإطلاق أي سواء أمن أو لا، قال في النهر: والمعانقة على التفصيل في المشهور، وكذا المباشرة الفاحشة في ظاهر الرواية، وعن محمد كراهتها مطلقاً، وهو رواية الحسن، قيل: وهو الصحيح. اهـ. واختار الكراهة في الفتح، وجزم بها في الولوالجية بلا ذكر خلاف، وهي أن يعانقها وهما متجردان ويمس فرجه فرجها، بل قال في الذخيرة: إن هذا مكروه بلا خلاف؛ لأنه يفضي إلى الجماع غالباً. اهـ. وبه علم أن رواية محمد بيان لكون ما في ظاهر الرواية من كراهة المباشرة ليس على إطلاقه، بل هو محمول على غير الفاحشة، ولذا قال في الهداية: والمباشرة مثل التقبيل في ظاهر الرواية، وعن محمد أنه كره المباشرة الفاحشة اهـ وبه ظهر أن ما مر عن النهر من إجراء الخلاف في الفاحشة ليس مما ينبغي، ثم رأيت في التتارخانية عن المحيط: التصريح بما ذكرته من التوفيق بين الروايتين وأنه لا فرق بينهما، ولله الحمد".

  ( کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسده،ج:2، ص:417، ط:دار الفكر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102403

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں