بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 جمادى الاخرى 1446ھ 09 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کے روزوں کا فدیہ جب کہ وصیت نہ کی ہو


سوال

ہمارے والدکابیماری میں انتقال ہوااوراس دوران ان کے سات روزے قضا ہوگئے اورپھرانہوں نے ان روزوں کافدیہ دینے کی کوئی وصیت بھی نہیں کی ، لہذااب سوال یہ ہے کہ کیاان کافدیہ دیاجائےگایانہیں ؟ کیوں کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دیناہے اورکچھ لوگ منع کرتےہیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ اگر والدمرحوم نے اپنی قضا روزوں  کے فدیہ کی ادائیگی کی وصیت نہیں کی تو ورثا کے ذمہ اس کی ادائیگی لازم نہیں، لیکن اگر کوئی وارث یا تمام ورثا جو عاقل و بالغ ہوں اپنی رضامندی سے میراث سے،یامیراث کے علاوہ اپنی طرف سے فدیہ ادا کرناچاہیں تو ایساکرسکتے ہیں ، یہ ان کی جانب سے تبرع و احسان ہوگا ۔ اورہرروزہ کافدیہ نصف صاع گندم ہے یعنی پونے دوکلوگندم یااس کی قیمت ہے، ایک فدیہ میں ایک فطرانے کی رقم دینابھی کافی ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم اعلم أنه إذا أوصى بفديه الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه  وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات: إنه يجزيه إن شاء الله تعالى فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطًا لاحتمال كون النص فيه معلولًا بالعحز فتشمل العلة الصلاة و إن لم يكن معلولاً تكون الفدية برًّا مبتدأً يصلح ماحيًا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول و لم يجزم بالأخيرين فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى."

(الدر المختار مع رد المحتار باب قضاء الفوائت  ۲/ ۷۲ ط: سعید)

وفیه أیضًا:

"(و لو مات و عليه صلوات فائتة و أوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرةو كذا حكم الوتر) و الصوم و إنما يعطى (من ثلث ماله )."

(حاشية رد المحتار على الدر المختار، باب قضاءالفوائت  ۲/ ۷۲  ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100425

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں