بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

روزہ کی حالت میں مقعد میں پانی چلے جانے سے روزہ کے فساد کا حکم


سوال

روزہ کی حالت میں استنجا کے دوران اگر غلطی سے مقعد میں پانی چلا جائے اور نکل بھی جائے تو کیا اس سےروزہ فاسد ہو جائے گا، (مسلم شاور استعمال کرتے ہوئے چلا جاتا ہے )؟اور اگر ہو گیا تو کیا کفارہ بھی ہو گا ؟ نیز لاعلمی کے زمانے میں اگر یہ فعل سرزد ہوا ہو تو کیا روزوں کی قضا اور کفارہ واجب ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر قضائے حاجت کے وقت پانی مقعد کے اندرتک پہنچ گیاچاہے پانی نکلے یانہ نکلے دونوں صورتوں میں روزہ ٹوٹ جائے گا،البتہ کفارہ لازم نہیں ہوگا۔

نیزاگربلوغت کے بعدمسئلہ  معلوم نہ ہونے کی وجہ سے  مذکورہ فعل سرزد ہواتوایسی صورت میں جتنے روزوں میں مذکورہ فعل سرزد ہوا،ان تمام روزوں کی قضاء لازم ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"أدخل أصبعه اليابسة فيه) أي دبره أو فرجها ولو ‌مبتلة فسد، ولو أدخلت قطنة إن غابت فسد وإن بقي طرفها في فرجها الخارج لا، ولو بالغ في الاستنجاء حتى بلغ موضع الحقنة فسد وهذا قلما يكون ولو كان فيورث داء عظيما."

(كتاب الصوم ، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده  ج: 2 ص : 397 ط : سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإذا خرج دبره، وهو صائم ينبغي أن لا يقوم من مقامه حتى ينشف ذلك الموضع بخرقة كي لا يدخل الماء جوفه فيفسد صومه ولهذا قالوا لا يتنفس في الاستنجاء إذا كان صائما كذا في محيط السرخسي في باب الاستجمار."

(كتاب الصوم ،النوع الأول ما يوجب القضاء دون الكفارة ج : 1 ص : 204 ط : رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101383

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں