بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے میں لاعلمی میں ہمبستری کرنا


سوال

 اگر انسان کے علم میں نہیں کہ ہمبستری کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور وہ ہمبستری کر بیٹھے، بعد میں پتہ چلا کہ اس کام کی  ممانعت تھی تو کیا  کفارہ دینا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ روزے میں ہم بستری کرنا حرام اور ناجائز ہے،روزے کی حالت میں ہم بستری کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتاہے اور اگر رمضان کے روزے میں ہم بستری کی ہو تو قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہوتے ہیں ،باقی سائل کوہم بستری سے روزے کے ٹوٹ جانے کا علم نہ ہونااسلامی ملک میں کوئی عذر نہیں ہے،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل پر قضاء کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی لازم ہے،اور سائل کی بیوی کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر بیوی ہم بستری  پر راضی تھی تو اس پر بھی قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے اور اگر بیوی راضی نہیں تھی تو جس روزے میں شوہر نے زبردستی ہم بستری کی تھی،بیوی پر صرف اس کی قضاء لازم ہے کفارہ نہیں۔ 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وإن جامع المكلف آدميا مشتهى في رمضان أداء لما مر أو جامع أو توارت الحشفة في أحد السبيلين أنزل أو لا...قضى في الصور كلها وكفر."

(ص:411،ج:2،کتاب الصوم،‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده،ط:سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"من جامع عمدا في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة ... وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعة، وإن كانت مكرهة فعليها القضاء دون الكفارة، وكذا إذا كانت مكرهة في الابتداء ثم طاوعته بعد ذلك."

(ص:205،ج:1،کتاب الصوم،الباب الرابع فيما يفسد وما لا يفسد،ط:دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأن ‌دار ‌الإسلام دار العلم بالشرائع، فيمكن الوصول إليها بالتعلم، فكان الجهل بالخيار في غير موضعه، فلا يعتبر، ولهذا لا يعذر العوام في ‌دار ‌الإسلام بجهلهم بالشرائع."

(ص:316،ج:2،کتاب النکاح،فصل شرائط اللزوم،ط:دار الکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100186

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں