بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے میں غسل جنابت میں تاخیر کرنا


سوال

رمضان شریف میں رات کو اگر ہم بستری کی جاۓ توکتنے وقت میں غُسل کرنا ضروری ہے؟کیا دن کو روزہ میں غُسل کیا جا سکتا ہے ؟اگر صبح کی نماز تک غسل نہ کیا روزہ ٹوٹ جاۓ گا؟

جواب

واضح رہے کہ ہم بستری کرنے کے بعد مناسب تو یہی ہے کہ غسل فوراً کر لیا جائے،اگر کسی وجہ سے فوراً غسل نہ کیا جاسکے تو اس میں تاخیر کی بھی گنجائش ہے،لیکن غسل نہ کرنے کی صورت میں مستحب یہ ہے کہ اگر   دوبارہ سونے کا یا کھانے،پینے کا اراد ہ ہے تو کم از کم وضو  کرلیا جائے،باقی تاخیر غسل کومستقل عادت بنانا،اور اس میں جان بوجھ کر سستی کرنا،ایک بری خصلت ہے جس کی وجہ سے رحمت کے فرشتے گھر میں آنا ترک کردیتے ہیں۔

صورتِ  مسئولہ میں رمضان میں رات کو ہم بستری کرنے کے بعد اگر فوراً غسل نہ کیا  اورناپاکی کی حالت میں ہی روزہ رکھ لیا  تو روزے   پر کوئی  اثر نہیں پڑے گا،ہاں نماز سے پہلے پہلے غسل کرنا ضروری ہے،تا کہ فجر کی نماز قضا نہ ہو؛  تاہم اگر  فجر سے پہلے پہلے غسل نہیں کیا تو بعد  میں  بھی غسل کرنا ہی ہے، اور دن میں بھی  روزہ کی حالت میں غسل کیا جا سکتا ہے،  البتہ وضو کے دوران غرغرہ نہ کرے۔ نیز اگر فجر کی نماز قضا کی  تو  نماز قضا کرنے کا گناہ ہوگا، لہٰذا اس پر استغفار بھی کرے۔ 

عمدۃ القاری میں ہے:

"عن عائشة وأم سلمة زوجتي النبي صلى الله عليه وسلم أنهما قالتا: إن كان رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ليصبح ‌جنبا من جماع غير احتلام في رمضان ‌ثم ‌يصوم...وقال القرطبي: في هذا فائدتان: أحدهما: أنه كان يجامع في رمضان ويؤخر الغسل إلى بعد طلوع الفجر بيانا للجواز. والثانية: أن ذلك كان من جماع لا من احتلام، لأنه كان لا يحتلم، إذ الاحتلام من الشيطان وهو معصوم منه."

(ص:4،ج:11،کتاب الصوم،باب الصائم يصبح جنبا،ط:دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"إن الملائكة لا تدخل بيتا فيه كلب ولا صورة ولا جنب، قلت: هذا بعيد، لأن المراد من هذا ‌الجنب الذي يتهاون بالاغتسال ويتخذه عادة حتی تفوته صلاة أو أكثر، وليس المراد منه من يؤخره ليفعله."

(ص:242،ج:3،کتاب الغسل،باب نوم الجنب،ط:دار الفکر)

عون المعبود میں ہے:

"الأحاديث تدل على أن الجنب له أن يأكل أو يشرب من غير التوضي والاغتسال والباب الآتي يدل على استحباب التوضي فلا منافاة بينهما...عن ‌عائشة: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا أراد أن يأكل أو ينام توضأ، تعني وهو جنب...والحديث يدل على أفضلية الغسل للجنب لأن العظيمة العزيمة أفضل من الرخصة."

(ص:257،ج:1،کتاب الطهارة،باب من قال الجنب يتوضأ ثم يأكل أو يشرب،ط:دار الکتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو ‌أصبح ‌جنبا في رمضان فصومه تام عند عامة الصحابة مثل علي وابن مسعود وزيد بن ثابت وأبي الدرداء وأبي ذر وابن عباس وابن عمر ومعاذ بن جبل  رضي الله تعالى عنهم ...أحل الله عز وجل الجماع في ليالي رمضان إلى طلوع الفجر، وإذا كان الجماع في آخر الليل يبقي الرجل جنبا بعد طلوع الفجر لا محالة فدل أن الجنابة لا تضر الصوم."

(ص:92،ج:2،کتاب الصوم،فصل أركان الصيام،ط:دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144409100262

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں