نسوار کے بارے میں مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں ؟ آیا اس سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ اس لیے کہ نسوار کا تعلق معدہ سے نہیں ہوتا تو بعض لوگ اس کو جائز سمجھتے ہیں اور روزہ توڑنے کے بارے میں جو بنیادی قاعدہ ہو وہ بتائیں۔ اسی طرح بعض لوگ اسپرے بھی نہیں لگاتے کہتے ہیں کہ اس میں الکوحل ہوتا ہے ۔آیا الکوحل سے روزہ کا کیا حکم ہے؟
روزے کے فاسد ہونے کا اصولی ضابطہ یہ ہے کہ منافذ معتادہ (یعنی جسم میں موجود قدرتی سوراخ) سے جوفِ دماغ یا جوفِ بطن تک کوئی چیز پہنچ جائے تو روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔
نسوار منہ میں رکھنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ قدرتی راستہ سے جوف دماغ تک اس کا اثر پہنچنا یقینی ہے (جیسا کہ فتاوی دار العلوم دیوبند و امداد المفتین میں ہے، مکمل فتوی مع حوالہ ذیل میں موجود ہے) ۔تمباکو (جو نسوار کا جزء ہوتا ہے) میں جوف کی طرف سرایت کرجانے کی خاص صلاحیت ہے، اسی وجہ سے اگر کوئی غیرعادی شخص اسے منہ میں رکھ لے تو فورًا سر چکرا جاتا ہے اور اعضاء ڈھیلے ہونے لگتے ہیں،یہ جوف دماغ اور معدہ میں پہنچے کی یقینی دلیل ہے۔
اسپرے کرتے وقت الکوحل اگر ناک کے راستہ سے جوفِ دماغ یا معدہ میں چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں۔ ٹوٹنے کی صورت میں قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا۔
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله: وإذا احتقن أو استعط أو أقطر في أذنه أو داوى جائفة أو آمة بدواء، ووصل إلى جوفه أو دماغه أفطر) لقوله عليه السلام «الفطر مما دخل، وليس مما خرج» رواه أبو يعلى الموصلي في مسنده، وهو مخصوص بحديث الاستقاء أو الفطر فيه باعتبار أنه يعود شيء."
(کتاب الصوم ،باب ما یفسد الصوم ،ج:۲، ص:۲۹۹،دار الکتاب الاسلامی)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) كره (مضغ علك) أبيض ممضوغ ملتئم، وإلا فيفطر»
(قوله أبيض إلخ) قيده بذلك؛ لأن الأسود وغير الممضوغ وغير الملتئم، يصل منه شيء إلى الجوف، وأطلق محمد المسألة وحملها الكمال تبعا للمتأخرين على ذلك قال للقطع بأنه معلل بعدم الوصول، فإن كان مما يصل عادة حكم بالفساد؛ لأنه كالمتيقن."
(کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم، ج :۲، ص:۴۱۶، ایچ ایم سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(أو دخل حلقه غبار أو ذباب أو دخان) ولو ذاكرا استحسانا لعدم إمكان التحرز عنه، ومفاده أنه لو أدخل حلقه الدخان أفطر أي دخان كان ولو عودا أو عنبرا له ذاكرا لإمكان التحرز عنه فليتنبه له كما بسطه الشرنبلالي»
(قوله: أنه لو أدخل حلقه الدخان) أي بأي صورة كان الإدخال، حتى لو تبخر ببخور وآواه إلى نفسه واشتمه ذاكرا لصومه أفطر لإمكان التحرز عنه وهذا مما يغفل عنه كثير من الناس، ولا يتوهم أنه كشم الورد ومائه والمسك لوضوح الفرق بين هواء تطيب بريح المسك وشبهه وبين جوهر دخان وصل إلى جوفه بفعله إمداد وبه علم حكم شرب الدخان ونظمه الشرنبلالي في شرحه على الوهبانية بقوله:
ويمنع من بيع الدخان وشربه … وشاربه في الصوم لا شك يفطر
ويلزمه التكفير لو ظن نافعا … كذا دافعا شهوات بطن فقرروا."
(کتاب الصوم ، باب ما یفسد الصوم ، ج:۲، ص:۳۹۵، ایچ ایم سعید)
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:
"سوال: ما قولكم رحمكم الله في رجل امسك النتن المعروف في فمه و لم يبتلع عينه و لا لعابه و لم يصلا الي الجوف هل يفسد صومه ام لا وهل يكون من قبل ذكره.
جواب: امساك النتن في الفم لا يجوز في الصوم لانه لا يخلو عن وصوله الي الحلق و الجوف عادة و العادة محكمة فالحذر من ان يأكل التنباك بهذه الوسوسة في نهار رمضان كيف وقد قالوا في مضغ العلك كما في الشامي و انما قيده بذلك اي بابيض لان الاسود و غيره الممضوغ و غير الملتئم يصل منه شيئ الي الجوف و لهذا يمنع عن شرب دخانه و يحكم انه مفطر و في التنباك خاصية في الانجذاب الي الجوف الا تري ان امساكه في الفم لغير المعتادين يوثر تاثيرا عظيما من دوارن الراس و انكسار الاعضاء فما هو الا وصول اثره الي الدماغ و الجوف ولا حول و لا قوة الا بالله العظيم فقط والله تعالي اعلم كتبه عزيز الرحمن عفي عنه
الجواب صواب محمد انور عفا الله عنه."
(کتاب الصوم ، ج :۶، ص:۲۶۹، دار الاشاعت)
امداد المفتین میں ہے:
"یہ صحیح ہے کہ کسی چیز کا محض منہ کے اندر پہنچ جانا مفطر نہیں ۔ دوسرا جزء یعنی ابتلاع کا فساد صوم کے لیے موقوف علیہ ہونا قابل غور ہے کیونکہ بتصریح فقہاء مدار فساد صوم کا یہ ہے کوئی مفطر چیز جوف و دماغ یا جوف معدہ میں پہنچ جائے خواہ ابتلاع کے ساتھ یا بغیر ابتلاع اسی وجہ سے ادویہ میں سعوط اور نیز حقہ کو باجماع مفسد صوم مانا گیا ہے حالانکہ ابتلاع متحقق نہیں اور جب مدار یہ ہوا کہ مفطر کا وصول جوف و دماغ یا معدہ میں ہوجائے تو بلا شبہ حقہ اور نسوار وغیرہ ناقض صوم ہوجائیں گے کیونکہ دماغ میں ان کا پہنچ جانا یقینی ہے ، ہاں اگر حقہ کا دم نہ بھرا جائے بلکہ ویسے ہی خفیف سا دھواں منہ میں آجائے جو دماغ تک نہ پہنچ سکے یا نسوار کو ناک کے اندر رکھ کر ایسی طرح نکال دیا جائے کہ دماغ میں نہ پہنچ سکے تو بے شک وہ مفسد صوم نہیں لیکن عرف عام کے اعتبار سے ایسا ہونا بہت بعید ہے بلکہ عادۃ متعذر کیا جائے تو صحیح ہے اس لیے حقہ پینے اور نسوار سونگنے کو مفسد صوم ہی کہا جائے گا الخ۔"
(کتاب الصوم، فصل فی ما یفسد الصوم وما یکرہ للصائم، ص:۴۱۴،دار الاشاعت)
جامعہ کا سابقہ فتوی:
"کیا فرماتے ہیں علماء دین مثلاً زید کو روزہ ہے مگر وہ نسوار ،بیڑی جو تمباکو اور چونا سے مرکب ہوتا ہے رکھتاہے حالت روزہ میں استعمال کرتاہے 3،4 منٹ اور اس کا اثر اندر حلق میں نہیں جانے دیتا بلکہ تھوک وغیرہ باہر پھینکتا ہے تو آیا زید کا روزہ صحیح ہے یا نہیں؟یا کراہت وغیرہ ہے ؟
صورت مسئولہ میں نسوار کا منہ میں رکھنا مفسد صوم ہے یعنی اس سے روزہ ٹوٹ جاتاہے ،کذا فی فتاوی دارالعلوم دیوبند جلد 2ص:72۔"(تصدیق:مفتی ولی حسن ٹونکی)
(139509300007)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101878
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن