ارادی طور پر روزہ میں بلغم نگلنے سے کیا روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟ جب کہ اس وقت بلغم تھوکنے کی کوئی جگہ نہ ہو، جیسا کہ مسجد میں موجود ہوں۔
اگر بلغم پیٹ سے منہ میں آکر رک جائے اور مقدار بھی زیادہ ہو اور اس کو قصداً نگل لیا جائے تو امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک روزہ فاسد ہوجائے گااور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک فاسد نہیں ہوگا ؛ اس لیے احتیاط ضروری ہے، اور اگر بلغم کی مقدار کم ہو تو بالاتفاق روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ اگر بلغم کی مقدار زیادہ ہو اور مسجد میں ہونے کی وجہ سے تھوکنے کی جگہ نہ ہو تو جیب میں رومال یا ٹشو وغیرہ میں تھوکا جاسکتاہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
" (قوله: فينبغي الاحتياط) ؛ لأن مراعاة الخلاف مندوبة وهذه الفائدة نبه عليها ابن الشحنة ومفاده أنه لو ابتلع البلغم بعدما تخلص بالتنحنح من حلقه إلى فمه لا يفطر عندنا قال في الشرنبلالية ولم أره ولعله كالمخاط قال: ثم وجدتها في التتارخانية سئل إبراهيم عمن ابتلع بلغما قال إن كان أقل من ملء فيه لا ينقض إجماعا وإن كان ملء فيه ينقض صومه عند أبي يوسف وعند أبي حنيفة لاينقض. اهـ."
(كتاب الصوم، باب كا يفسد الصوم و ما لا يفسده، ٢ / ٤٠٠، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144209202381
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن