بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

روزہ کی نیت کے بعد سفر میں جانے سے پہلے روزہ توڑ دینے کی صورت میں قضا اور کفارہ کا حکم


سوال

اگر کسي آدمی نے  صبح میں سحری کھالی  اور اچانک سفر کا ارادہ کر لیا اور جاتے وقت روزہ توڑ دیا تو صرف قضا واجب ہو گی یا کفارہ بھی؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر کوئی شخص  اڑتالیس میل  (سوا ستتر کلومیٹر) یا اس سے زیادہ   مسافت کے ارادے سے سفر کے لیے  نکلے    تو ایسے شخص کو اپنے شہر  کی حدود سے نکلنے کے بعد روزہ  رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار ہوگا، اور نہ رکھنے کی صورت میں بعد میں اس روزہ کی قضا کرنا لازم ہوگی۔

اور  شرعی طور پر اس شخص کے لیے سفر میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے جو صبح صادق کے وقت سفر میں ہو اور شرعی مسافر بن چکا ہو (یعنی شہر کی حدود وغیرہ سے نکل چکاہو)، اور اگر کوئی شخص صبح صادق کے وقت سفر میں نہ ہو  اس کے لیے روزہ چھوڑناجائز نہیں، اگرچہ دن میں اس کا سفر میں جانےکاارادہ ہو۔

لہذا  کوئی شخص صبح  صادق کے وقت مقیم تھا اور اس نے سحری کرکے روزہ رکھ لیا اور سفر شروع کرنے سے پہلے  بلاعذر روزہ توڑ دیا تو چوں کہ اس وقت یہ شخص مقیم تھا، اس لیے اس پر قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

کفارے کی تفصیل کے لیے درج ذیل لنک دیکھیے:

روزے کا کفارہ کیا ہے؟

الفتاوى الهندية (1 / 207):

" وَلَوْ سَافَرَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ثُمَّ رَجَعَ إلَى أَهْلِهِ لِيَحْمِلَ شَيْئًا نَسِيَهُ فَأَكَلَ بِمَنْزِلِهِ ثُمَّ خَرَجَ الْقِيَاسُ أَنْ تَجِبَ عَلَيْهِ الْكَفَّارَةُ؛ لِأَنَّهُ رَفَضَ سَفَرَهُ قَالَ الْفَقِيهُ وَبِهِ نَأْخُذُ كَذَا فِي الْغِيَاثِيَّةِ".

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2 / 391):

"وفي هذه المواضع أيضا: إذا سافر في شهر رمضان وخرج من مصره، ولم يفطر، وقد نسي شيئا، فرجع إلى منزله يحمل ذلك الشيء، وأكل في منزله شيئا، وخرج كان عليه الكفارة لأنه لما رجع فقد رفض سفره، وكان مقيما".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 431):

"(كما يجب على مقيم إتمام) صوم (يوم منه) أي رمضان (سافر فيه) أي في ذلك اليوم (و) لكن (لا كفارة عليه لو أفطر فيهما) للشبهة في أوله وآخره إلا إذا دخل مصره لشيء نسيه فأفطر فإنه يكفر

(قوله فإنه يكفر) أي قياسا لأنه مقيم عند الأكل حيث رفض سفره بالعود إلى منزله وبالقياس نأخذ اهـ خانية فتزاد هذه على المسائل التي قدم فيها القياس على الاستحسان حموي وقد مر أنه لو أكل المقيم ثم سافر أو سوفر به مكرها لا تسقط الكفارة والظاهر أنه لو أكل بعد ما جاوز بيوت مصره ثم رجع فأكل لا كفارة عليه وإن عزم على عدم السفر أصلا بعد أكله لأن أكله وقع في موضع الترخص نعم يجب عليه الإمساك".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200896

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں