بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے کی مقصدیت


سوال

روزے کی اصل مقصدیت کیا ہے؟

جواب

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے روزے کی  حکمت اور مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ."(البقرۃ183)

( اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کر دیے گئے ہیں ،جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے ،تاکہ تم متقی بن جاؤ)

 اس آیت میں اس بات کی صراحت ہے کہ روزے رکھنے کا اصل مقصد تقوی حاصل کرنا ہے ۔

 عقلی طور پر روزوں کی مشروعیت کی مقصدیت کے دو پہلوں ہیں : (1)  روزوں سے بہیمیت کا زور توڑنا۔۔۔انسان کو اللہ تعالی نے روحانیت اور حیوانیت کا جامع بنایا ہے ،اس کی فطرت میں وہ سارے تقاضے رکھے ہیں جو دوسرے حیوانات میں ہوتے ہیں ، او ر یہی حیوانیت جب زور پکڑتی ہے ،تو وہ روحانیت کے احکام کو ظاہر ہونے کا موقع نہیں دیتی ،تو پھر حیوانیت کا زور توڑنے کے لیے ان چیزوں کو کم کردیا جاتا ہے  جن سے وہ مضبوط ہوتی ہے ،اور وہ تین چیزیں ہیں ،کھانا ،پینا،اور شہوانی لذتوں میں منہمک ہونا ۔

(2)  روزوں کے ذریعے سے حیوانیت کو روحانیت کے تابع بنانا ۔۔۔یعنی شریعت کا منشا یہ نہیں کہ حیوانیت بالکل ختم ہوجائے کیونکہ وہ فطری چیز ہے ،بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ حیوانیت کو روحانیت کا تابع کردیا جائے  ،اس طرح کہ وہ روحانیت کے اشارے پر کام کرنے لگے ، اور جس طرح  مُہر کی انگوٹھی کے ابھرے ہوئے حروف موم پر  نقش ہوجاتے ہیں ،روحانیت میں حیوانیت کے خسیس نقوش نہ ابھریں ،اس کا طریقہ یہ ہے کہ  روحانیت جن باتوں کو سنجیدگی سے چاہے ،تو حیوانیت فورا اس کی تعمیل کرے ،اب وہ باتیں جن کو ملکیت چاہے ،اور حیوانیت  ان کے کرنے پر مجبور ہو وہ دو ہیں: ایک وہ کام جن سے روحانیت کو انشراح اور سکون جب کہ حیوانیت کو تنگ دلی ہوتی ہے ،جیسے عبادت کرنا ،روزے رکھنا ،تلاوت وغیرہ  پس جب روحانیت ،حیوانیت سے یہ کام کروائے گی تو ،حیوانیت کا زور ٹوٹے گا ۔اور دوم وہ کام جن کو حیوانیت چاہتی ہے  ،جن سے لطف اندوز ہوتی ہے ،جن سے اس کو نشاط ملتی ہے ،یعنی شہوت بطن وفرج تو حیوانیت ا ن کو چھوڑدے اور ان سے کنارہ کش ہوجائے  تو حیوانیت کمزور ہوجاتی ہے ،اور روحانیت غالب ہوجاتی ہے ،یہی روزو ں کا اصل مقصد ہے ۔

حجۃ اللہ البالغہ میں ہے :

"ولما كانت البهيمية الشديدة مانعة عن ظهور أحكام الملكية وجب الاعتناء بقهرها، ولما كان سبب شدتها وتراكم طبقاتها وغزارتها هو الأكل والشرب والانهماك في اللذات الشهوية، فإنه يفعل ما لا يفعله الأكل الرغد، وجب  أن يكون طريق القهر تقليل هذه الأسباب، ولذلك اتفق جميع من يريدون ظهور أحكام الملكية على تقليلها ونقصها مع اختلاف مذاهبهم وتباعد أقطارهم. وأيضاً فالمقصود إذعان البهيمية للملكية، بأن تتصرف حسب وحيها وتنصبغ بصبغها وتمنع الملكية منها بألا تقبل ألوانها الدنية ولا تنطبع فيها نقوشها الخسيسة كما تنطبع نقوش الخاتم في الشمعة ولا سبيل إلى ذلك إلا أن تقتضي الملكية شيئاً من ذاتها وتوحيه إلى البهيمية وتقترحه عليها، فتنقاد لها، ولا تبغي عليها ولا تتمنع منها، ثم تقتضي أيضاً، وتنقاد هذه أيضاً، ثم وثم، حتى تعتاد ذلك وتتمرن . وهذه الأشياء التي تقتضيها هذه من ذاتها وتُقسر تلك عليها على رغم أنفها إنما يكون من جنس ما فيه انشراح لهذه وانقباض لتلك، وذلك كالتشبه بالملكوت والتطلع للجبروت، فإنهما خاصية الملكية بعيدة عنهما البهيمية غاية البعد، أو ترك ما تقتضيه البهيمية وتستلذه وتشتاق إليه في غلوانها ، وهذا هو الصوم ."

(ابواب الصوم ،ج:2،ص:75 ،ط:دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102611

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں