بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

روزہ کی حالت میں زنا کرنے سے روزہ کی قضاء و کفارہ کا حکم


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ اگر غلطی سے غیر محرم عورت کے ساتھ زنا ہو گیا تو کیا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب

جس شخص نے رمضان میں روزے کی حالت میں زنا کیا اس نے بہت بڑا گناہ کیا، زنا بدترین چلن اور اللہ کے غضب کا سبب ہے، اس کی وجہ سے قوموں میں نئی نئی بیماریاں آتی ہیں، حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ : ”شرک کرنے کے بعد اللہ کے نزدیک کوئی گناہ اس نطفہ سے بڑا نہیں جس کو آدمی اُس شرم گاہ میں رکھتا ہے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔“  رمضان المبارک میں جیسے نیکی کا ثواب بڑھتا ہے، اسی طرح گناہ کی شدت بھی بڑھ جاتی ہے، رمضان المبارک کے روزے میں بدکاری کے ارتکاب پر ایسے شخص کو سچے دل سے توبہ کرنی چاہیے، توبہ کی تکمیل یہ ہے کہ جس سے یہ تعلق قائم ہوا یا جو ماحول اس گناہ کا باعث ہوا اس سے تعلق فی الفور ترک کرے، ندامت کے ساتھ اللہ کے حضور استغفار کرے اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے، سچے دل سے کی ہوئی توبہ اللہ پاک قبول فرماتے ہیں اور گناہ کو ایسے مٹادیتے ہیں جیسے گناہ ہوا ہی نہ ہو۔

بہرحال صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا روزہ ٹوٹ گیا اور اس روزے کی قضا کے ساتھ ساتھ  (توبہ کے علاوہ) اس کے  ذمہ روزہ توڑنے کا کفارہ ادا کرنا بھی لازم ہے۔ 

کفارے  میں اس پر مسلسل ساٹھ  روزے رکھنا ضروری ہوگا، اگر درمیان میں ایک روزہ بھی رہ جائے تو از سرِ نو رکھنا لازم ہوں گے،  اگر اس کی  قدرت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دینا لازم ہے،  ایک صدقہ فطر کی مقدار   پونے دو کلو   گندم یا اس کی قیمت  ہے۔

ایک مسکین کو ساٹھ دن صدقہ فطر  کے برابر غلہ وغیرہ دیتا رہے یا ایک ہی دن ساٹھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کی مقدار دےدے ،  دونوں جائز ہے۔

صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا قیمت  دینے کے بجائے اگر ساٹھ مسکینوں کو ایک دن صبح وشام، یا ایک مسکین کو ساٹھ دن صبح وشام کھانا کھلادے، تو بھی کفارہ ادا ہوجائےگا

کنز العمال میں ہے:

"ما ذنب بعد الشرك أعظم عند الله من نطفة وضعها رجل في رحم لا يحل له. "ابن أبي الدنيا عن الهيثم بن مالك الطائي".

(كتاب الحدود، الباب  الثانی فی انواع الحدود، ‌‌الفصل الأول: في الزنا،‌‌الفرع الاول: في الوعيد على الزنا، ج:5، ص: 314، رقم الحدیث: 12994، ط: موسسة الرسالة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"من جامع عمداً في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولايشترط الإنزال في المحلين، كذا في الهداية. وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعةً، وإن كانت مكرهةً فعليها القضاء دون الكفارة...

إذا أكل متعمداً ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة، وهذا إذا كان مما يؤكل للغذاء أو للدواء فأما إذا لم يقصد لهما فلا كفارة وعليه القضاء، كذا في خزانة المفتين ... وإذا أصبح غير ناو للصوم ثم نوى قبل الزوال ثم أكل فلا كفارة عليه، كذا في الكشف الكبير".

(كتاب الصوم، النوع الثاني ما يوجب القضاء والكفارة، ج:1، ص:205، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100164

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں