بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مقعد کے اندر گیلی انگلی ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟


سوال

 مجھے پاخانہ کرنے میں تکلیف ہوتی  ہےتو اس لیے مجھے تھوڑی سی انگلی اندر ڈالنی پڑتی ہے، جس سے پاخانہ صحیح آجاتا ہے، تو پوچھنا یہ تھا کہ اگر گیلی انگلی ڈالی جائے تو کیا روزہ فاسد ہوگا ؟ دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر دیکھا تھا وہاں لکھا ہوا تھا کہ اگر گیلی انگلی موضع حقنہ تک نہیں پہنچی تو روزہ نہیں ٹوٹے گا تو بس تسلی کے لیے  یہاں  مسئلہ دریافت کر رہا ہو ں ،دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ بھی یہاں کاپی کر رہا ہو ں ،دیکھ لیجیے ۔ اگر کسی نے روزہ کی حالت میں بیماری کی وجہ سے دو مرتبہ خشک انگلی پچھلی شرمگاہ میں ڈالی تو اس سے روزہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔  اور  اگر کسی نے (پانی یا دوا سے )تر انگلی ڈالی اور اندر حقنہ کی جگہ تک پہنچادی، یعنی: اس جگہ تک پہنچادی جہاں تک حقنہ کا آلہ پہنچاکر آنتوں  کی  طرف  دوا  چھوڑی جاتی ہے تو  البتہ  اس صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا، ورنہ  تر  انگلی کی صورت میں بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا۔  (احسن الفتاوی، ۴: ۴۴۰، مطبوعہ: ایچ ایم سعید کراچی)

جواب

صورتِ  مسئولہ میں استنجا کے دوران اگر پاخانے کی جگہ گیلی اور ترانگلی ڈالی  تو  اس سے روزہ  ٹوٹ جائے گا ،روزے کی قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں۔ اور اگر پاخانے کی  جگہ خشک انگلی ڈالی تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا ،نیز سائل کو پاخانہ میں تکلیف ہوتی ہےتو کسی طبیب سے رجوع کرے۔

واضح رہے کہ جو چیزیں نظروں سے غائب ہوتی ہیں ان میں صرف ظاہر پر فتوی ٰدیا جاتا ہے،فتاویٰ شامی میں جو تر انگلی داخل کرنے کی صورت میں روزے کے فساد کو موضع حقنہ تک پہنچنے کے ساتھ مقید کیا گیا ہے،  اس پر مطلع ہونا  اور اسے پہچاننا مشکل ہے،   اس لیے فقہی قواعد کی روشنی میں یہاں ظاہر پر فتوی ٰدیا جاتا ہے،  یعنی صرف تر انگلی داخل کرنے کے ساتھ ہی روزہ فاسد ہوجائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و لو أدخل اصبعه الیابسة فيه أی دبرہ أو فرجها و لو مبتلة فسد، ... و لو بالغ في الاستنجاء حتى بلغ موضع الحقنة فسد و هذا قلما يكون و لو كان فيورث داء عظيمًا.

[قال ابن عابدين:] (قوله: ولو مبتلة فسد) لبقاء شيء من البلة في الداخل وهذا لو أدخل الأصبع إلى موضع المحقنة كما يعلم مما بعده، ... وفي الفتح خرج سرمه فغسله فإن قام قبل أن ينشفه فسد صومه وإلا فلا؛ لأن الماء اتصل بظاهره ثم زال قبل أن يصل إلى الباطن بعود المقعدة (قوله: حتى بلغ موضع الحقنة) هي دواء يجعل في خريطة من أدم يقال لها المحقنة مغرب ثم في بعض النسخ المحقنة بالميم وهي أولى قال في الفتح: والحد الذي يتعلق بالوصول إليه الفساد قدر المحقنة اهـ. أي قدر ما يصل إليه رأس المحقنة التي هي آلة الاحتقان وعلى الأول فالمراد الموضع الذي ينصب منه الدواء إلى الأمعاء."

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، 2/ 397، ط: سعید)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"[مراقي الفلاح:] "ويبالغ" المستنجي "في التنظيف حتى يقطع الرائحة الكريهة" .... و" يبالغ "في إرخاء المقعدة" فيزيل ما في الشرج بقدر الإمكان "إن لم يكن صائما" والصائم لا يبالغ حفظا للصوم عن الفساد ويحترز أيضا من إدخال الأصبع مبتلة لأنه يفسد الصوم "فإذا فرغ" من الاستنجاء بالماء "غسل يده ثانيا ونشف مقعده قبل القيام" لئلا تجذب المقعدة شيئا من الماء "إذا كان صائما"..

[حاشية الطحطاوي:] قوله: "حفظا للصوم عن الفساد" في الخلاصة من كتاب الصوم إنما يفسد إذا وصل الماء إلى موضع الحقنة وقلما يكون ذلك اهـ وفي القهستاني من كتاب الصوم و مع هذا في إفساد الصوم بذلك خلاف اهـ وما قيل إنه لا يتنفس شديدا حفظا للصوم فحرج ولا فائدة فيه فإنه لا يصل بالتنفس شيء إلى الداخل أصلا أفاده العلامة نوح وفي السراج وغيره إذا خرج دبره وهو صائم فغسله لا يقوم حتى ينشفه قبل رده فإن رجع قبل التنشيف مبتلا أفطر اهـ"

ـ(كتاب الطهارة، فصل في الإستنجاء، ص48، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

و فيه أيضاً:

"أو أدخل أصبعه مبلولة بماء أودهن في دبره" أو استنجى فوصل الماء إلى داخل دبره أو فرجها الداخل بالمبالغة فيه والحد الفاصل الذي يتعلق بالوصول إليه الفساد قدر الحقنة وقلما يكون ذلك ولو خرج سرمه؟؟ فغسله إن نشفه قبل أن يقوم ويرجع لمحله لا يفسد صومه.

قال الطحطاوي: قوله: "أو أدخل إصبعه مبلولة الخ" فلو لم تكن مبلولة لا يجب القضاء أفاده السيد والظاهر أن الإدخال لا يفسد إلا إذا وصل إلى محل الحقنة قوله: "والحد الفاصل" أي في الإفطار بالواصل إلى الدبر قوله: "قدر المحقنة" أي قدر ما تأخذ من المحل الذي تصل إليه قوله: "وقلما يكون ذلك" ويورث داء عظيما قوله: "ولو خرج سرمه" في القاموس السرم بالضم مخرج الثفل وهو طرف المعا المستقيم قوله: "لزوال الماء الذي اتصل به" لأن الماء اتصل بظاهره ثم زال قبل أن يصل إلى الباطن كذا في الشرح.‘‘

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم و يوجب القضاء، ص676، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100196

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں