بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے کی حالت میں بوس و کنار کا حکم


سوال

مجھ سے روزے  کی حالت میں ایک غلطی ہوئی ہے کہ میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی کے ساتھ سویا، ہم نے بوس و کنار کیا، ایک دوسرے کو چھوتے رہے، پیار کرتے رہے، مگر سیکس نہیں کیا، بس چھوتے رہے، اور پیار کرتے رہے، مجھے اپنے اوپر اعتماد تھا کہ سیکس نہیں کیا، میں بہت پریشان ہوں، تفصیلی حکم بتادیں!

جواب

جس شخص کو اپنے اوپر اعتماد نہ ہو  اس کے لیے روزے کی حالت میں بیوی سے بوس و کنار کرنا، معانقہ کرنا سب مکروہ ہے، تاہم جب تک منی نہ نکلے اس وقت تک روزہ فاسد نہیں ہوتا، البتہ بوس و کنار کے دوران اگر  ایک دوسرے کا تھوک نگلا ہو تو روزہ فاسد ہوجاتا ہے، اور قضا کے ساتھ  کفارہ بھی لازم ہوتا ہے۔ یعنی اس صورت میں ایک روزے کی جگہ ایک روزہ بطورِ قضا اور اس کے ساتھ ساٹھ (60) روزے لگاتار بطورِ کفارہ رکھنے ہوں گے، درمیان میں ایک دن بھی وقفہ کرلیا تو از سرِ نو دو مہینے کے روزے رکھنے ہوں گے۔ اگر کسی شرعی عذر  کی وجہ سے واقعۃً مسلسل ساٹھ روزے رکھنا ممکن نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلانا یا ساٹھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کی مقدار ادا کرنا ضروری ہوگا۔

اگر آپ نے روزے کے دوران صرف بوس و کنار کیا، آپ دونوں میں سے کسی کو انزال نہیں ہوا، نہ ہی آپ میں سے کسی نے دوسرے کا تھوک نگلا تو اس صورت میں روزہ فاسد نہیں ہوا، اگر آپ کو خود پر اعتماد تھا تو صرف بوسہ لینا مکروہ نہیں تھا، تاہم جسم کے دیگر حصوں کو چھونا یا اعتماد نہ ہو تو بوسہ لینا مکروہ ہوگا۔

تنوير الأبصار مع الدر المختار   میں ہے:

"(وَ) كُرِهَ (قُبْلَةٌ) وَمَسٌّ وَمُعَانَقَةٌ وَمُبَاشَرَةٌ فَاحِشَةٌ (إنْ لَمْ يَأْمَنْ) الْمُفْسِدَ وَإِنْ أَمِنَ لَا بَأْسَ".

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَكُرِهَ قُبْلَةٌ إلَخْ) جَزَمَ فِي السِّرَاجِ بِأَنَّ الْقُبْلَةُ الْفَاحِشَةَ بِأَنْ يَمْضُغَ شَفَتَيْهَا تُكْرَهُ عَلَى الْإِطْلَاقِ أَيْ سَوَاءٌ أَمِنَ أَوْ لَا، قَالَ فِي النَّهْرِ: وَالْمُعَانَقَةُ عَلَى التَّفْصِيلِ فِي الْمَشْهُورِ، وَكَذَا الْمُبَاشَرَةُ الْفَاحِشَةُ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ، وَعَنْ مُحَمَّدٍ كَرَاهَتُهَا مُطْلَقًا وَهُوَ رِوَايَةُ الْحَسَنِ، قِيلَ: وَهُوَ الصَّحِيحُ. اهـ. وَاخْتَارَ الْكَرَاهَةَ فِي الْفَتْحِ وَجَزَمَ بِهَا فِي الْوَلْوَالِجيَّةِ بِلَا ذِكْرِ خِلَافٍ وَهِيَ أَنْ يُعَانِقَهَا وَهُمَا مُتَجَرِّدَانِ وَيَمَسَّ فَرْجُهُ فَرْجَهَا، بَلْ قَالَ فِي الذَّخِيرَةِ: إنَّ هَذَا مَكْرُوهٌ بِلَا خِلَافٍ؛ لِأَنَّهُ يُفْضِي إلَى الْجِمَاعِ غَالِبًا. اهـ. وَبِهِ عُلِمَ أَنَّ رِوَايَةَ مُحَمَّدٍ بَيَانٌ لِكَوْنِ مَا فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ مِنْ كَرَاهَةِ الْمُبَاشَرَةِ لَيْسَ عَلَى إطْلَاقِهِ، بَلْ هُوَ مَحْمُولٌ عَلَى غَيْرِ الْفَاحِشَةِ، وَلِذَا قَالَ فِي الْهِدَايَةِ: وَالْمُبَاشَرَةُ مِثْلُ التَّقْبِيلِ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ، وَعَنْ مُحَمَّدٍ: أَنَّهُ كَرِهَ الْمُبَاشَرَةَ الْفَاحِشَةَ اهـ وَبِهِ ظَهَرَ أَنَّ مَا مَرَّ عَنْ النَّهْرِ مِنْ إجْرَاءِ الْخِلَافِ فِي الْفَاحِشَةِ لَيْسَ مِمَّا يَنْبَغِي، ثُمَّ رَأَيْت فِي التَّتَارْخَانِيَّة عَنْ الْمُحِيطِ: التَّصْرِيحَ بِمَا ذَكَرْته مِنْ التَّوْفِيقِ بَيْنَ الرِّوَايَتَيْنِ وَأَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَهُمَا وَلِلَّهِ الْحَمْدُ (قَوْلُهُ: إنْ لَمْ يَأْمَنْ الْمُفْسِدَ) أَيْ الْإِنْزَالَ أَوْ الْجِمَاعَ، إمْدَادٌ (قَوْلُهُ: وَإِنْ أَمِنَ لَا بَأْسَ) ظَاهِرُهُ أَنَّ الْأَوْلَى عَدَمُهَا لَكِنْ قَالَ فِي الْفَتْحِ: وَفِي الصَّحِيحَيْنِ «أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ كَانَ يُقَبِّلُ وَيُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ» وَرَوَى أَبُو دَاوُد بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ «أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ الْمُبَاشَرَةِ لِلصَّائِمِ فَرَخَّصَ لَهُ وَأَتَاهُ آخَرُ فَنَهَاهُ» فَإِذَا الَّذِي رَخَّصَ لَهُ شَيْخٌ وَاَلَّذِي نَهَاهُ شَابٌّ. اهـ". ( كتاب الصوم، بَابُ مَا يُفْسِدُ الصَّوْمَ وَمَا لَا يُفْسِدُهُ، ٢ / ٤١٧، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَلَوْ ابْتَلَعَ بُزَاقَ غَيْرِهِ فَسَدَ صَوْمُهُ بِغَيْرِ كَفَّارَةٍ إلَّا إذَا كَانَ بُزَاقَ صَدِيقِهِ فَحِينَئِذٍ تَلْزَمُهُ الْكَفَّارَةُ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ". (كتاب الصوم، الْبَابُ الرَّابِعُ فِيمَا يُفْسِدُ، وَمَا لَا يُفْسِدُ، ١ / ٢٠٣، ط: دار الفكر) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109202463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں