اگر گلہ میں ریشہ باہر نکالنے کے لیے انگلی ڈالی جائے جب کہ قے کرنے کا ارادہ نہ ہو اور قے آ جائے تو کیا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں روزہ کی حالت میں گلے سے ریشہ باہر نکالنے کے لیے اپنے قصد اور ارادے سے انگلی ڈالی تو اگر اس سے منہ بھر کر قے نہیں ہوئی، بلکہ اس سے کم ہوئی تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، اور اگر منہ بھر کر قے ہوئی تو چوں کہ قصدًا الٹی کرنے کے لیے گلے میں انگلی نہیں ڈالی تھی اس لیے اس صورت میں بھی روزہ فاسد نہیں ہوگا، البتہ چوں کہ گلے میں انگلی ڈالنے کا عمل، قے لانے والا عمل ہے ، اس لیے منہ بھر کر قے ہونے کی صورت میں احتیاطًا ایک روزہ کی قضا کرلی جائے۔
روزہ میں قے (الٹی) ہوجانے یا کرنے سے روزہ ٹوٹنے سے متعلق تفصیل کے لیے یہاں کلک کریں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 414):
"(وإن ذرعه القيء وخرج) ولم يعد (لايفطر مطلقًا) ملأ أو لا (فإن عاد) بلا صنعه (و) لو (هو ملء الفم مع تذكره للصوم لايفسد) خلافًا للثاني (وإن أعاده) أو قدر حمصة منه فأكثر حدادي (أفطر إجماعًا) ولا كفارة (إن ملأ الفم وإلا لا) هو المختار (وإن استقاء) أي طلب القيء (عامدًا) أي متذكرًا لصوم (إن كان ملء الفم فسد بالإجماع) مطلقًا (وإن أقل لا) عند الثاني وهو الصحيح، لكن ظاهر الرواية كقول محمد إنه يفسد كما في الفتح عن الكافي (فإن عاد بنفسه لم يفطر وإن أعاده ففيه روايتان) أصحهما لايفسد، محيط (وهذا) كله (في قيء طعام أو ماء أو مرة) أو دم (فإن كان بلغمًا فغير مفسد) مطلقًا خلافًا للثاني، و استحسنه الكمال وغيره".
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144209200487
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن