بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزہ کی حالت میں دانت یا ڈاڑھ نکلوانا


سوال

 روزہ کی حالت میں دانت یا پھر داڑھ نکالی جا سکتی ہے یا نہیں؟

جواب

اگر روزے کی دوران دانت یا ڈاڑھ نکالنے کی شدید ضرورت ہو تو دانت یا ڈاڑھ نکالنے کی گنجائش ہوگی، البتہ  اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ خون یا پیپ یا دوا حلق سے نہ اترے، چوں کہ اس کا احتمال ہوتا ہے؛  اس لیے اگر روزہ کی حالت میں شدید ضرورت نہ ہو تو دانت نہ نکلوانا بہتر ہے۔

اگر دانت یا ڈاڑھ نکالنے سے خون، پیپ   حلق میں چلے گیا اور اور وہ تھوک کے برابر یا اس پر  غالب تھا  یا اس کا ذائقہ حلق میں محسوس ہوا تو روزہ ٹوٹ جائے گا، اسی طرح اگر غیر اختیاری طور پر دوا حلق میں چلی گئی تو بھی روزہ فاسد ہوجائے گا قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 396):

" (أو خرج الدم من بين أسنانه ودخل حلقه) يعني ولم يصل إلى جوفه أما إذا وصل فإن غلب الدم أو تساويا فسد وإلا لا، إلا إذا وجد طعمه بزازية واستحسنه المصنف وهو ما عليه الأكثر وسيجيء.

(قوله: يعني ولم يصل إلى جوفه) ظاهر إطلاق المتن أنه لا يفطر وإن كان الدم غالبا على الريق وصححه في الوجيز كما في السراج وقال: ووجهه أنه لا يمكن الاحتراز عنه عادة فصار بمنزلة ما بين أسنانه وما يبقى من أثر المضمضة كذا في إيضاح الصيرفي. اهـ. ولما كان هذا القول خلاف ما عليه الأكثر من التفصيل حاول الشارح تبعا للمصنف في شرحه بحمل كلام المتن على ما إذا لم يصل إلى جوفه؛ لئلا يخالف ما عليه الأكثر. قلت: ومن هذا يعلم حكم من قلع ضرسه في رمضان ودخل الدم إلى جوفه في النهار ولو نائما فيجب عليه القضاء إلا أن يفرق بعدم إمكان التحرز عنه فيكون كالقيء الذي عاد بنفسه فليراجع."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200476

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں