کیا روزے کی حالت میں جماع کرنا صحیح ہے بھولے سے ہو یا جان بوجھ کر ہو؟
روزے کی حالت میں ہم بستری کرنا ناجائز اور حرام ہے، اگر رمضان کے روزے کے دوران ہم بستری کی تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے، بیوی اگر راضی ہو تو میاں بیوی دونوں پر علیحدہ علیحدہ کفارہ لازم ہوگا۔
ایک روزے کے کفارے میں ساٹھ روزے مسلسل رکھنے واجب ہوں گے، اور اگر بیماری وغیرہ کسی شرعی عذر کی بنا پر واقعۃً روزہ رکھنے پر قادر نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلانا، یا ساٹھ مسکینوں کو صدقۃ الفطر کے بقدر رقم ادا کرنا ہوگا۔
البتہ اگر روزے دار کو روزہ یاد نہ ہو اور اس حالت میں وہ ہم بستری کرلے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
الفتاوى الهندية (1/ 205):
"من جامع عمدًا في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولايشترط الإنزال في المحلين، كذا في الهداية. وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعةً، وإن كانت مكرهةً فعليها القضاء دون الكفارة، وكذا إذا كانت مكرهةً في الابتداء ثم طاوعته بعد ذلك كذا في فتاوى قاضي خان".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 394):
"(إذا أكل الصائم أو شرب أو جامع) حال كونه (ناسيًا) في الفرض والنفل قبل النية أو بعدها على الصحيح، بحر عن القنية إلا أن يذكر فلم يتذكر، ويذكره لو قويًا وإلا وليس عذرًا في حقوق العباد.
(قوله: ناسيًا) أي لصومه؛ لأنه ذاكر للأكل والشرب والجماع، معراج (قوله: في الفرض) ولو قضاء أو كفارة".
الفتاوى الهندية (1/ 202):
"إذا أكل الصائم أو شرب أو جامع ناسيًا لم يفطر، ولا فرق بين الفرض والنفل، كذا في الهداية". فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109200332
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن