بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے کی حالت میں بیوی سے ہم بستری کرنے کا حکم


سوال

 مجھے صرف یہ معلوم تھا کہ  روزے کی حالت میں ہم بستری نہیں کرسکتے ہیں، مگر  مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ روزے کی حالت میں بیوی سے ہم بستری کرنے سے قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوتے ہیں ۔ ہم بستری کرنے کے بعد جب میں نے انٹرنیٹ سے اس کے بارے میں معلوم کیا تو مجھے علم ہوا کہ اس میں تو قضا و  کفارہ  دونوں لازم ہوں گے ۔ مگر اب تو میں نے ہم بستری کر لی ہے اس پر مجھے کیا کرنا ہوگا؟  ہم دونوں نے رضامندی سے ہم بستری کی ہے،مگر اس کے بارے میں میری بیوی کو ان  سب باتوں کا علم نہ تھا!

جواب

رمضان المبارک  میں جس روزے کی نیت صبح صادق سے پہلے (یعنی سحری کے وقت میں) کرلی ہو، اس روزے کی حالت میں بیوی سے ہم بستری ( جماع )کرنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے،  ایسا کرنے سے میاں بیوی  دونوں پر  قضا  اور  کفارہ   لازم ہوں گے، نیز دونوں کو استغفار بھی کرنا ہوگا۔

کفارہ   کی تفصیل یہ ہے کہ   ساٹھ روزے مسلسل رکھنے  ہوں گے، اگر درمیان میں کسی دن روزہ چھوڑ دیا تو ازسرِ نو دو ماہ کے روزے مسلسل رکھنے ہوں گے، البتہ عورت کو ایام کے دنوں میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے، اس لیے عورت ان دنوں میں روزے نہیں رکھے گی، اور اس سے تسلسل میں فرق نہیں آئے گا۔ اور اگر بیماری وغیرہ کی وجہ سے واقعتًا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے کی قدرت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلایا جائے، یا ساٹھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دے دی جائے۔ صدقہ فطر کی مقدار گندم کے اعتبار سے پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت ہے، جو اس سال (2021ء - 1442ھ میں) کراچی اور اس کے مضافات میں 140 روپے ہے۔  اگر ایک ہی مسکین کو ساٹھ دن تک دو وقت کا کھانا دیا یا ہر روز صدقہ فطر کی مقدار ادا کی تو بھی کفارہ ادا ہوجائے گا۔ 

اور جو روزہ  فاسد ہوا  ہے اس کی قضا  بھی  کرنی ہوگی۔

سائل اور اس کی اہلیہ کی لاعلمی سے مسئلے کے حکم پر فرق نہیں پڑے گا۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره (قبلة) ومس ومعانقة ومباشرة فاحشة (إن لم يأمن) المفسد وإن أمن لا بأس.

(قوله: وكره قبلة إلخ) جزم في السراج بأن القبلة الفاحشة بأن يمضغ شفتيها تكره على الإطلاق أي سواء أمن أو لا، قال في النهر: والمعانقة على التفصيل في المشهور، وكذا المباشرة الفاحشة في ظاهر الرواية، وعن محمد كراهتها مطلقاً، وهو رواية الحسن، قيل: وهو الصحيح. اهـ. واختار الكراهة في الفتح، وجزم بها في الولوالجية بلا ذكر خلاف، وهي أن يعانقها وهما متجردان ويمس فرجه فرجها، بل قال في الذخيرة: إن هذا مكروه بلا خلاف؛ لأنه يفضي إلى الجماع غالباً. اهـ. وبه علم أن رواية محمد بيان لكون ما في ظاهر الرواية من كراهة المباشرة ليس على إطلاقه، بل هو محمول على غير الفاحشة، ولذا قال في الهداية: والمباشرة مثل التقبيل في ظاهر الرواية، وعن محمد أنه كره المباشرة الفاحشة اهـ وبه ظهر أن ما مر عن النهر من إجراء الخلاف في الفاحشة ليس مما ينبغي، ثم رأيت في التتارخانية عن المحيط: التصريح بما ذكرته من التوفيق بين الروايتين وأنه لا فرق بينهما، ولله الحمد."

(2/ 417، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ط: سعید)  

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200312

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں