کیا روزے میں بیوی سےہم بستری کر سکتے ہیں؟
روزے کی حالت میں بیوی سے ہم بستری ( جماع )کرنا جائز نہیں ہے، اگر کی تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔ اور رمضان المبارک کے ایسے روزے میں ہم بستری کرلی جس روزے کی صبح صادق سے پہلے نیت کی تھی تو میاں بیوی دونوں پر قضا اور کفارہ لازم ہوں گے ، نیز توبہ و استغفار کرنا بھی ضروری ہوگا۔
قضا کامطلب یہ ہے کہ ایک روزے کے بدلے ایک روزہ قضا کرنا ہوگا، اور کفارہ کی تفصیل یہ ہے کہ ایک روزے کے بدلے (قضا روزے کے علاوہ) ساٹھ روزے مسلسل رکھنے ہوں گے ۔ اگر درمیان میں ایک روزہ بھی چھوڑ دیا تو ازسرِ نو دو مہینے کے روزے رکھنے ہوں گے، اور اگر بڑھاپے یا شدید ضعف کی وجہ سے واقعتًا مسلسل دو ماہ روزے رکھنے کی قدرت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا یا ساٹھ مسکینوں کو صدقہ فطر کی مقدار غلہ (پونے دو کلو گندم) یا اس کی قیمت دینا ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
'' (و) كره (قبلة) ومس ومعانقة ومباشرة فاحشة (إن لم يأمن) المفسد وإن أمن لا بأس''.
''(قوله: وكره قبلة إلخ) جزم في السراج بأن القبلة الفاحشة بأن يمضغ شفتيها تكره على الإطلاق أي سواء أمن أو لا، قال في النهر: والمعانقة على التفصيل في المشهور، وكذا المباشرة الفاحشة في ظاهر الرواية، وعن محمد كراهتها مطلقاً، وهو رواية الحسن، قيل: وهو الصحيح. اهـ. واختار الكراهة في الفتح، وجزم بها في الولوالجية بلا ذكر خلاف، وهي أن يعانقها وهما متجردان ويمس فرجه فرجها، بل قال في الذخيرة: إن هذا مكروه بلا خلاف؛ لأنه يفضي إلى الجماع غالباً. اهـ. وبه علم أن رواية محمد بيان لكون ما في ظاهر الرواية من كراهة المباشرة ليس على إطلاقه، بل هو محمول على غير الفاحشة، ولذا قال في الهداية: والمباشرة مثل التقبيل في ظاهر الرواية، وعن محمد أنه كره المباشرة الفاحشة اهـ وبه ظهر أن ما مر عن النهر من إجراء الخلاف في الفاحشة ليس مما ينبغي، ثم رأيت في التتارخانية عن المحيط: التصريح بما ذكرته من التوفيق بين الروايتين وأنه لا فرق بينهما، ولله الحمد''۔
(2/ 417، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144209200293
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن