بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے کے کفارہ میں قیدی کو چھڑانا


سوال

روزے کا کفارہ ادا کرنے کے سلسلے میں پہلی چیز غلام آزاد کردینا ہے (لاشک فیہ.) مسئلہ یہ مطلوب ہے کہ کیا (غلام و آقا کا زمانہ نہیں رہا) آج کے زمانہ میں کسی قیدی کو جیل سے رہا کرانے کی صورت میں روزے کا کفارہ ادا ہوجائے گا؛ کیوں کہ اس میں بھی تو روپیہ پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے نا ؟ یہ تو ظاہر ہی ہے کی غلام مملوک اور قیدی محبوس ہوتا ہے ؟

جواب

 غلام بنانے کی اجازت جن صورتوں میں ہے، اس کے لیے جو شرائط ہیں کہ  شرعی جہاد ہو ، امام المسلمین کی رائے ہو اورمسلمانوں اورغیر مسلموں میں کوئی ایسا معاہدہ نہ ہو جس کی رو سے ایک دوسرے کے قیدیوں کو غلام نہ بنایاجاسکتا ہو  وغیرہ وغیرہ ، موجودہ دور میں یہ شرائط مکمل نہیں ہیں، اس لیے موجودہ دور میں غلاموں کا وجود نہیں ہے۔

جس کی تفصیل درج ذیل لنک پر ملاحظہ فرمائیں :

موجودہ دور میں باندیوں اور لونڈیوں کا تصور

آزاد قیدی کو غلام پر قیاس کرنا درست نہیں ہے، غلام مملوک ہوتا ہے، اور آج کل جیل میں قید لوگ آزاد ہیں، غلام نہیں ہیں،  اور قرآن کریم میں روزے کے کفارے میں پہلے غلام کو آزاد کرنے کا ذکر ہے، اس سے مراد شرعی غلام ہیں، جیل کےآزاد  قیدی نہیں ہے، قیدی اس زمانے میں بھی موجود تھے، لیکن کفارے میں غلام/ باندی کو خاص کردیا گیا، اگر قیدی کو بھی داخل کرنا مقصود ہوتا تو ’’اسیر‘‘ کا لفظ نصوص میں وارد ہوتا؛ اس لیے قیدی کو قید سے چھڑوانے سے کفارہ ادا نہیں ہوگا، لہذا  موجودہ دور میں  کفارے  میں ابتداءً مسلسل ساٹھ روزے رکھنا ضروری ہوگا، اگر درمیان میں ایک روزہ بھی رہ جائے تو از سرِ نو رکھنا لازم ہوں گے،  اگر اس کی  قدرت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دینا لازم ہے ،  ایک صدقہ فطر کی مقدار  نصف صاع (پونے دو کلو ) گندم یا اس کی قیمت  ہے۔

ایک مسکین کو ساٹھ  دن صدقہ فطر  کے برابر غلہ وغیرہ دیتا رہے یا ایک ہی دن ساٹھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کی مقدار دےدے ،  دونوں جائز ہے۔

صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا قیمت  دینے کے بجائے اگر ساٹھ مسکینوں کو ایک دن صبح وشام، یا ایک مسکین کو ساٹھ دن صبح وشام کھانا کھلادے، تو بھی کفارہ ادا ہوجائےگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 412):
"كفارة المظاهر) الثابتة بالكتاب، وأما هذه فبالسنة ومن ثم شبهوها بها.

(قوله: ككفارة المظاهر) مرتبط بقوله: وكفر أي مثلها في الترتيب؛ فيعتق أولاً، فإن لم يجد صام شهرين متتابعين، فإن لم يستطع أطعم ستين مسكينًا؛ لحديث الأعرابي المعروف في الكتب الستة، فلو أفطر ولو لعذر استأنف إلا لعذر الحيض، وكفارة القتل يشترط في صومها التتابع أيضًا، وهكذا كل كفارة شرع فيها العتق، نهر، وتمام فروع المسألة في البحر، وفيه أيضًا: ولا فرق في وجوب الكفارة بين الذكر والأنثى والحر والعبد والسلطان وغيره، ولهذا صرح في البزازية بالوجوب على الجارية فيما لو أخبرت سيدها بعدم طلوع الفجر عالمةً بطلوعه فجامعها مع عدم الوجوب عليه وبأنه إذا لزمت السلطان، وهو موسر بماله الحلال وليس عليه تبعة لأحد يفتى بإعتاق الرقبة، وقال أبو نصر محمد بن سلام: يفتى بصيام شهرين؛ لأن المقصود من الكفارة الانزجار ويسهل عليه إفطار شهر وإعتاق رقبة فلايجعل الزجر. اهـ. (قوله: ومن ثم) أي من أجل ثبوت كفارة الظهار بالكتاب وثبوت كفارة الإفطار بالسنة، شبهوا الثانية لكونها أدنى حالا بالأولى لقوتها بثبوتها بالكتاب ط". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109200813

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں