بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے کا وقت طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے یا تبیین فجر سے


سوال

 روزے کا وقت طلوع فجر ہی سے شروع ہوتا ہے یا تبیین فجر سے ،اس میں علماء کاکیا اختلاف ہے ؟اور فتویٰ کس قول پر ہے۔

جواب

روزہ صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور  فجر کا وقت صبحِ  صادق کے تحقق کے ساتھ ہوتا ہے، سحری کرنے والوں کو  اس سے پہلے پہلے کھانا پینا بند کرنا ضروری ہوتا ہے، یعنی انتہائے سحر صبح صادق پر ہوتی ہے  اور صبحِ  صادق اس سفیدی کو کہا جاتا ہے جو مشرق کی جانب، سورج طلوع ہونے سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے پہلے آسمان کے کنارے پر چوڑائی میں یعنی شمالاً و جنوباً دکھائی دیتی ہے، اور جلد ہی پورے آسمان پر پھیل جائے، اس سے فجر کا وقت شروع ہوتا ہے، اور روزہ رکھنے والوں پر کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے، یہی انتہائے سحر ہے۔

اور  صبح صادق سے پہلے ایک اور سفیدی آسمان کے درمیان میں ایک ستون کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، اسے صبحِ  کاذب کہا جاتا ہے، اس روشنی کے ظاہر ہونے پر نہ فجر کا وقت داخل ہوتا ہے اور نہ روزہ رکھنے کا ارادہ کرنے والوں پر کھانا پینا حرام ہوتا ہے۔

موجودہ دور میں عوام الناس کی سہولت کی خاطر نمازوں اور سحر و افطار کے اوقات معلوم کرنے کے لیے مستند نقشے موجود ہیں، مثلاً: پروفیسر عبداللطیف صاحب مرحوم کا ترتیب دیا ہوا نقشہ، کسی مستند نقشے میں صبح صادق کا وقت دیکھ کر سحری بند کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

نوٹ:طلوع فجر اور تبیین فجر دونوں کا مطلب  ہے:"فجر صادق کا طلوع ہونا"،لہذا دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے،جب فرق نہیں  تویہ سوال (کہ روزے کا وقت طلوع فجر  سے شروع ہوتا ہے یا تبیین فجر سے؟)کرنا درست نہیں ہے،اور اگر سائل کی مراد اس سوال سے کچھ اور ہے ،تو لکھ کر دوبارہ سوال جمع کروائیں۔

قرآن کریم میں ہے:

 وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ(سورة البقرة،الآية:187)

بخاری شریف میں ہے:

"وعن عائشة: أن بلالاً كان يؤذن بليل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “كلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم: فإنه لا يؤذن، حتى يطلع الفجر".

(كتاب الصوم،باب: قول النبي صلى الله عليه وسلم: (لا يمنعنكم من سحوركم أذان بلال،ج:2،ص:677،رقم:1819،ط: دار ابن كثير، دار اليمامة)

فتح الباری میں ہے:

"وقد وقع في حديث عدي سواد الليل وبياض النهار ومعنى الآية حتى يظهر بياض النهار من سواد الليل وهذا البيان يحصل بطلوع الفجر الصادق ففيه دلالة على أن ما بعد الفجر من النهار وقال أبو عبيد المراد بالخيط الأسود الليل وبالخيط الأبيض الفجر الصادق والخيط اللون".

(باب قول الله عز وجل وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم،ج:4،ص:134،ط: دار المعرفة)

المحیط البرہانی میں ہے:

"قال أصحابنا رحمهم الله: وقت الصوم من حين يطلع الفجر الثاني، وهو الفجر المستطير المنتشر في الأفق إلى وقت غروب الشمس خروج وقت الصوم،

(كتاب الصوم، الفصل الأول، ج:2، ص:373، ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144412100332

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں