الدر المختار وحاشیہ ابن عابدين کی دو عبارتوں میں ظاہراً تضاد معلوم ہورہا ہے:
عبارت اول: (فإن ماتوا فيه) أي في ذلك العذر (فلا تجب) عليهم (الوصيةبالفدية)لعدم إدراكهم عدة من أيام أخر (ولو ماتوا بعد زوال العذر وجبت) الوصية بقدر إدراكهم عدة من أيام أخر، …
عبارت دوم : المريض إذا تحقق اليأس من الصحة فعليه الفدية لكلّ يوم من المرض اھ.
اور بدائع الصنائع میں اسی عبارت کی تائید اس طرح ہے کہ:
وأما وجوب الفداء، فشرطه العجز عن القضاء عجزًا لاترجىمعه القدرة في جميع عمره..
ان دو عبارتوں میں بظاہر واضح تضاد ہے، کیونکہ ایک عبارت کا مفہوم یہ ہے ، کہ جب مرض دائمی ہو جائے اور موت تک روزہ نہ رکھ سکے اور اسی مرض کی حالت میں مر جائے تو اس مریض پر فدیہ کی وصیت ضروری نہیں ہے۔ دوسری عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ جب مرض طول پکڑے اور مریض کو موت تک صحت یاب ہونے کی امید بھی نہ ہو تو فدیہ دینا ضروری ہے۔
یہاں کے بعض علماء کرام نے اس تعارض کو اس طرح دفع کیا ہے ،کہ جب مریض کسی بیماری میں مبتلا ہو اور روزہ رکھنے سے موت تک عاجز ہو اور اس حالت میں مر جائے تو فدیہ واجب نہیں ہے۔ البتہ اگر درمیان میں صحت یاب ہو جائے لیکن اس نے روزہ نہیں رکھا یہاں تک کہ دوبارہ بیمار ہوا، اور مرتے دم تک بیمار رہے تو اس پر فدیہ واجب ہے۔ لیکن مجھے ان عبارات کے ساتھ ایسی تفصیل نہیں ملی جس میں یہ تفصیل ہو جو علماء کرام نے بیان کی ہے، علماء کرام فرماتے ہیں کہ ظاہری تعارض اس بات کی دلیل ہے کہ ایک عبارت مقید ہے ،تو ان علماء کے فرمان کے مطابق ( ان ہیلر ) یا زیادہ شوگر کے مریضوں پر فدیہ واجب نہیں ہونا چاہیئے ، کیونکہ وہ مرتے دم تک روزہ نہیں رکھ سکتے ۔
1۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ الدر المختار اور حاشیہ ابن عابدین کی مذکورہ دونوں عبارتوں میں بظاہر کوئی تعارض نہیں، پہلی عبارت کا تعلق اس عذر اور مرض کے ساتھ ہے جو دائمی نہ ہو، یعنی کسی شخص کو ایسی بیماری لاحق ہوگئی جس کے بعد صحت ملنے کی امید تھی لیکن اس شخص کا اسی بیماری میں انتقال ہوگیاجیسے کہ حاملہ یا مرضعہ عورت کا دوران ِعذر انتقال کرجانا ، یا کسی مسافر کا دوران سفر انتقال ہوگیا، تو ایسے افراد پر روزہ کا فدیہ اور اس کی وصیت واجب نہیں۔
اور دوسری عبارت کا تعلق ایسے معذور شخص کے ساتھ ہےجس کو صحت ملنے کی بالکل امید نہ ہو اور ہمیشہ کے لیے روزہ سے عاجز ہوچکا ہو، جیسے شیخ فانی،تو اس پر فدیہ ادا کرنا ضروری ہے۔
معلوم ہوا کہ پہلی عبارت کا تعلق عام مرض سے ہے اور دوسری عبارت کا تعلق شیخ فانی سے ہے۔
2۔ جو شخص شوگر کا ایسا مریض ہے کہ روزہ رکھنے پر قادر نہیں ، یا سانس کی ایسی بیماری ہے کہ انہیلر استعمال کیے بغیر آرام نہیں ملتا ، تو وہ شیخ فانی کے حکم میں ہے اور اس پر فدیہ واجب ہے۔
التفسير المنير ميں ہے:
"أَيّاماً مَعْدُوداتٍ فَمَنْ كانَ مِنْكُمْ مَرِيضاً أَوْ عَلى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ۔۔۔ثبت بالأسانيد الصحاح عن ابن عباس أن آية {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ} ليست بمنسوخة، وأنها محكمة في حق من لا يقدر على الصيام، وفيه ضرر، كالشيخ الفاني والشيخة الفانية، وعليهم الفدية: طعام مسكين. فالناس على ثلاث أحوال: الأصحاء المقيمون، ويلزمهم الصوم عينا في رمضان، والمرضى والمسافرون، ولهم الفطر إن أرادوا، وعليهم إن أفطروا أيام أخر، وقوم لا يقدرون على الصوم، وفيه ضرر، فهؤلاء يفدون. والراجح أن هذه الآية تتناول الحامل والمرضع، سئل الحسن البصري عن الحامل والمرضع إذا خافتا على نفسهما أو ولدهما، فقال: أي مرض أشد من الحمل؟ تفطر وتقضي.وأجمع العلماء على أن الواجب على الشيخ الهرم الفدية ومثله المريض الذي لا يرجى برؤه، أما الحامل والمرضع، فعليهما القضاء دون الفدية عند الحنفية."
(الآية :184، فقه الحياة او الاحكام،ج: 1، ص:140،ط: دار الفكر)
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما وجوب الفداء: فشرطه العجز عن القضاء عجزا لا ترجى معه القدرة في جميع عمره فلا يجب إلا على الشيخ الفاني، ولا فداء على المريض والمسافر ولا على الحامل والمرضع وكل من يفطر لعذر ترجى معه القدرة لفقد شرطه وهو العجز المستدام، وهذا لأن الفداء خلف عن القضاء، والقدرة على الأصل تمنع المصير إلى الخلف كما في سائر الأخلاف مع أصولها، ولهذا قلنا: إن الشيخ الفاني إذا فدى ثم قدر على الصوم بطل الفداء."
(کتاب الصوم،فصل بيان ما يسن وما يستحب للصائم وما يكره له أن يفعله،ج:2، ص: 105، دار الكتب العلمية)
البحر الرائق ميں ہے:
"(قوله وللشيخ الفاني وهي يفدي فقط) أي له الفطر وعليه الفدية وليست على غيره من المريض والمسافر والحامل والمرضع لعدم ورود نص فيهم ووروده في الشيخ الفاني وهو الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت."
(کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، فصل فی عوارض الفطر فی رمضان،ج 2 ، ص 302، ط دار الکتاب الاسلامی)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144508100823
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن