بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزہ کی نیت اور افطار کی مسنون دعا دل میں یا زبان سے پڑھنے کا حکم


سوال

 روزہ کی نیت یا افطار کے لیے مسنون دعا پڑھنا(زبان سے پڑھنا یا دل میں پڑھنا) کیسا ہے؟

جواب

رمضان کا روزہ صحیح ہونے کے لیے نیت کرنا ضروری ہے اورنیت در حقیقت دل کے ارادہ کا نام ہے،زبان سے نیت ضروری نہیں ہے، دل میں صرف اتنا ارادہ کافی ہے کہ میں روزہ رکھ رہاہوں، اور رمضان میں سحری کرنا بھی نیت کے قائم مقام ہے اگرچہ زبان سے کچھ نہ کہا ہو۔ البتہ زبان سے نیت کرنا مستحب ہے، لیکن اس کے لیے الفاظ مقرر نہیں ہیں۔ نیز رات میں یا صبح صادق سے پہلے اردو یا عربی  میں (مثلا " وبصوم غد نویت من شهر رمضان" کہہ کر) زبان سے نیت کی ادائیگی کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن نیت کے یہ مشہور الفاظ حدیث میں وارد نہیں ہوئے ہیں، اس لیے ان الفاظ کو مسنون سمجھ کر نہیں کہنا چاہیے۔

افطار کا وقت دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہے؛ اس لیے   اس وقت میں خوب اہتمام سے دعائیں مانگنی چاہیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افطار کے وقت کی مسنون دعائیں احادیث  کی کتابوں میں منقول ہیں۔

(ا) "اَللَّھُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ."

[مشکوۃ۔ص:175،کتاب الصوم۔ط:قدیمی کراچی]

ترجمہ:اے اللہ!میں نے تیرے ہی واسطے روزہ رکھا اورتیرے ہی رزق سے افطارکیا۔

(۲ )  ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ."

[سنن ابی داؤد۔2/278،بیروت]

ترجمہ:پیاس چلی گئی اوررگیں ترہوگئیں اوراللہ نے چاہا تو اجر و ثواب  قائم ہوگیا۔

ان احادیث کے ذیل میں بعض شارحین نے یہی لکھاہے کہ افطار کے بعد یہ دعائیں پڑھی جائیں۔[ملاحظہ ہو عون العبود،مرقاۃ المفاتیح]

البتہ مولاناعاشق الٰہی بلندشہری رحمہ اللہ نے ’’تحفۃ المسلمین ‘‘میں لکھاہے کہ ان میں سے پہلی دعا افطاری کے وقت یعنی افطارسے قبل اوردوسری دعاافطاری کے بعد پڑھنی چاہیے۔(جیساکہ الفاظ احادیث بھی اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ افطاری کے بعدہی پڑھی جائے۔)

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وَشَرْطُ) صِحَّةِ الْأَدَاءِ: النِّيَّةُ وَالطَّهَارَةُ عَنْ الْحَيْضِ وَالنِّفَاسِ، كَذَا فِي الْكَافِي وَالنِّهَايَةِ. وَالنِّيَّةُ مَعْرِفَتُهُ بِقَلْبِهِ أَنْ يَصُومَ، كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ، وَمُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ. وَالسُّنَّةُ أَنْ يَتَلَفَّظَ بِهَا، كَذَا فِي النَّهْرِ الْفَائِقِ. ثُمَّ عِنْدَنَا لَا بُدَّ مِنْ النِّيَّةِ لِكُلِّ يَوْمٍ فِي رَمَضَانَ، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ. وَالتَّسَحُّرُ فِي رَمَضَانَ نِيَّةٌ ذَكَرَهُ نَجْمُ الدِّينِ النَّسَفِيُّ".

( كِتَابُ الصَّوْمِ وَفِيهِ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ، الْبَابُ الْأَوَّلُ فِي تَعْرِيفِهِ وَتَقْسِيمِهِ وَسَبَبِهِ وَوَقْتِهِ وَشَرْطِهِ، ١/ ١٩٥)

سنن أبي داود (2/ 306) :

"2357 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى أَبُو مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ سَالِمٍ الْمُقَفَّعَ، قَالَ: «رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَى الْكَفِّ» وَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ»".

وفیه أیضًا:

"عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ، أَنَّهُ بَلَغَهُ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ»".

(سنن أبي داود (2/ 306)  

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144208200925

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں