بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے کی حالت میں بیوی سے ہمبستری اور اپنے ہاتھ سے خواہش پوری کرنے کا حکم


سوال

اگر کوئ شخص روزے کی حالت میں بیوی سے ہمبستری کرے   یا اپنے ہاتھ سےخواہش پوری کرے تو کیا حکم ہے، تو کیا  60 روزے رکھنے پڑیں گے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر رمضان کے مہینے میں روزہ کی حالت میں  ہمبستری کی ہو تو  ایک روزہ کی قضاء اور کفارہ کے مسلسل 60 دن تک روزے رکھنے ہوں گے، اگر درمیان میں کوئی روزہ چھوٹ گیا تو پھر نئے سرے سے روزے شروع کریں گے اور 60 کا عدد پورا کریں گے، اور اگر رمضان کے مہینے کے علاوہ کسی دن روزہ رکھا ہو اور ہمبستری کرے تو پھر اس روزہ کی  صرف قضاء لازم ہے۔

 مرد و عورت دونوں کے لیے یہی حکم ہے، اگر دونوں شروع سے راضی تھے۔

ایک روزہ قضاء کا اور ساٹھ روزے کفارے کے کل اکسٹھ(61) روزے رکھنے ہوں گے۔

روزے کے دوران ہاتھ سے خواہش پوری کرنے سے اگر انزال ہو گیا تو روزہ فاسد ہو گیا، قضا ضروری ہے، کفارہ  نہیں، اور اگر انزال نہیں ہوا تو روزہ فاسد نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ ہاتھ سے خواہش پوری کرنا ناجائز اور حرام ہے، اس پر لعنت بھیجی گئی ہے، قیامت کے دن ایسے لوگوں کے ہاتھ حاملہ ہوں گے۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله ومن جامع أو جومع أو أكل أو شرب عمدا غذاء أو دواء قضى وكفر ككفارة الظهار) أما القضاء فلاستدراك المصلحة الفائتة، وأما الكفارة فلتكامل الجناية أطلقه فشمل ما إذا لم ينزل؛ لأن الإنزال شبع؛ لأن قضاء الشهوة يتحقق دونه، وقد وجب الحد بدونه، وهو عقوبة محضة فما فيه معنى العبادة أولى، وشمل الجماع في الدبر كالقبل، وهو الصحيح والمختار أنه بالاتفاق كذا ذكره الولوالجي لتكامل الجناية لقضاء الشهوة."

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، 297/2، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما صيام غير رمضان فلا يتعلق بإفساد شيء منه وجوب الكفارة، لأن وجوب الكفارة بإفساد صوم رمضان عرف بالتوقيف، وأنه صوم شريف في وقت شريف لا يوازيهما غيرهما من الصيام والأوقات في الشرف والحرمة، فلا يلحق به في وجوب الكفارة."

(كتاب الصوم، في حكم من أفسد صومه، 102/2، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(النوع الثاني ما يوجب القضاء والكفارة) . من جامع عمدا في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولا يشترط الإنزال في المحلين كذا في الهداية. وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعة، وإن كانت مكرهة فعليها القضاء دون الكفارة، وكذا إذا كانت مكرهة في الابتداء ثم طاوعته بعد ذلك كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الصوم، النوع الثاني ما يوجب القضاء والكفارة، 205/1، ط: رشيدية)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله فعليه القضاء استدراكا للمصلحة الفائتة والكفارة) فلو كفر بالصوم فصام أحدا وستين يوما عن القضاء والكفارة من غير تعيين يوم القضاء منها قالوا يجزئه، وقد قدمناه."

(كتاب الصوم، باب ما يوجب القضاء والكفارة، 261/2، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے: 

"(وإن أفطر خطأ)......(أو وطئ امرأة ميتة) أو صغيرة لا تشتهى نهر.......أو استنما بكفه أو بمباشرة فاحشة ولو بين المرأتين (فأنزل) قيد للكل حتى لو لم ينزل لم يفطر كما مر.....(قضى) في الصور كلها (فقط).....(قوله: في الصور كلها) أي المذكورة تحت قوله وإن أفطر خطأ إلخ لا صور التفريع (قوله: فقط) أي بدون كفارة".

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، 401/2-407، ط: سعيد)

ایضاً: 

"(قوله: وكذا الاستمناء بالكف) أي في كونه لا يفسد لكن هذا إذا لم ينزل أما إذا أنزل فعليه القضاء".

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، 399/2، ط: سعيد)

ایضاً:

"وإن كره تحريما لحديث ناكح اليد ملعون".

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، 399/2، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101517

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں