بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے کی حالت میں فرج کے علاوہ میں جماع کرنے سے کفارہ کا حکم


سوال

اگر معاذاللہ روزہ دار نے روزے کی حالت میں لواطت کی، لیکن یقین ہو کہ دخول نہیں ہوا،  انزال ہوگیا،  تو کیا کفارہ لازم ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ بدفعلی (مرد یا عورت کے پچھلے راستے سے جماع کرنا ) گناہ کبیرہ ہے، اور اس قبیح فعل پر اللہ رب العزت نے قومِ لوط کو ہلاک کردیا تھا، نیز یہ قبیح فعل اللہ کی رحمت سے دوری کا باعث ہے، جیساکہ ’’سنن الترمذی‘‘  میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس شخص پررحمت کی  نظر نہیں فرماتا جو کسی مرد یا عورت کے پاخانے کے راستہ سے آئے۔

"أخرج الترمذي عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم "لا ينظر الله إلى رجل أتى رجلاً أو امرأةً في دبرها" وقال: حديث حسن غريب، ورواه النسائي في الكبري، وابن حبان في صحيحه، وأبويعلى في المسند، وغيرهم."

بعض روایات میں اس قابلِ لعنت فعل کی بہت سخت سزائیں وارد ہوئی ہیں؛ لہذا اس قبیح فعل سے فوری توبہ کرنا ضروری ہے ورنہ آخرت میں سخت عذاب ہوگا۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں  اگر کسی روزے دار نے کسی کے ساتھ بد فعلی (پاخانہ کی جگہ میں )  جماع کیا تھا اور عضو مخصوص کی سپاری اندر چلی گئی تھی،  تو روزہ فاسد ہوگیا، خواہ منی نکلی ہو یا نہ نکلی ہو، بہر صورت قضا و کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔  

اور اگر بدفعلی سے مراد  دخول کے بغیر  کسی اجنبیہ یا اجنبی سے لذت کے ساتھ انزال کرناہے،  تو بھی روزہ فاسد ہوگیا، اور سخت گناہ ہوا، لہٰذا توبہ وا ستغفار کرے اور ایک روزے کی قضا کرے، اس صورت میں کفارہ لازم نہیں ہوگا۔

 ہدایہ میں ہے:

"‌ومن ‌جامع ‌فيما ‌دون ‌الفرج فأنزل فعليه القضاء لوجود الجماع معنى  ولا كفارة عليه  لانعدامه صورة."

(‌‌كتاب الصوم، ‌‌باب ما يوجب القضاء والكفارة، ج: 1، ص: 122، ط: دار احياء التراث العربي)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"(‌ومن ‌جامع ‌فيما ‌دون ‌الفرج فأنزل فعليه القضاء ولا كفارة عليه) أما القضاء فلوجود الجماع معنى وهو الإنزال ولا كفارة لانعدامه صورة وهو الإيلاج."

(كتاب الصوم، ج: 1، ص: 141، ط: المطبعة الخيرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإن جامع) المكلف آدميا مشتهى (في رمضان أداء) لما مر (أو جامع) أو توارت الحشفة (في أحد السبيلين) أنزل أو لا... (عمدا)... قضى)... (وكفر).

وفي الرد: (قوله: في أحد السبيلين) أي القبل أو الدبر وهو الصحيح في الدبر والمختار أنه بالاتفاق ولوالجية لتكامل الجناية لقضاء الشهوة بحر."

(‌‌كتاب الصوم، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ج: 2، ص: 409۔411، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502100412

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں