بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے کا کفارہ اور فدیہ


سوال

روزے کا کفارہ کیا ہے؟

جواب

جواب سے پہلے یہ سمجھ  لیجیے،  ایک ہے روزے کا کفارہ، دوسرا ہے روزے کا فدیہ۔ دونوں کا حکم درج کیا جاتاہے:

1- وہ شخص جس میں روزہ فرض ہونے کی تمام شرائط پائی جاتی ہوں، رمضان کے اُس اَدا روزے میں جس کی نیت صبح صادق سے پہلے کرچکا ہو عمداً  روزہ توڑدے، یعنی بدن کے کسی جوف میں قدرتی یا مصنوعی منفذ  (Opening) سے کوئی ایسی چیز پہنچائے جو انسان کی غذا یا دوا کے طور پر استعمال ہوتی ہو یا جماع کرے یا کرائے ان تمام صورتوں میں روزہ ٹوٹ جائے گا اور روزے کی قضا کے ساتھ کفارہ بھی واجب ہوگا، اور اس فعل پر توبہ واستغفار بھی کرنا لازم ہوگی۔

کفارے  میں اس پر مسلسل ساٹھ روزے رکھنا ضروری ہوگا، اگر درمیان میں ایک روزہ بھی رہ جائے تو از سرِ نو رکھنا لازم ہوں گے،  اگر اس کی  قدرت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دینا لازم ہے ،  ایک صدقہ فطر کی مقدار  نصف صاع (پونے دو کلو ) گندم یا اس کی قیمت  ہے۔

ایک مسکین کو  ساٹھ دن صدقہ فطر  کے برابر غلہ وغیرہ دیتا رہے یا ایک ہی دن ساٹھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کی مقدار دےدے ،  دونوں جائز ہے۔

صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا قیمت  دینے کے بجائے اگر ساٹھ مسکینوں کو ایک دن صبح وشام، یا ایک مسکین کو ساٹھ دن صبح وشام کھانا کھلادے، تو بھی کفارہ ادا ہوجائےگا۔

اور اگر آپ کی مراد روزے کے کفارے  سے فدیہ ہے  تو اس کی تفصیل یہ ہے:

2- جو شخص بڑھاپے یا دائم المریض ہونے کی وجہ سے روزے رکھنے پر قادر نہ ہو اور نہ ہی مستقبل میں اس کی صحت کی کوئی امید ہو تو ایسے شخص کو ہر روزے کے بدلے میں پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت بطورِ فدیہ دینی ہوگی، لیکن اس کے بعد اگر صحت یاب ہو گیا تو دوبارہ روزے قضاکرنا ضروری ہوگا، اور جو رقم فدیے میں دی وہ صدقہ شمار ہوگی،  عام بیماری جس میں صحت یابی کی امید ہو اس میں روزے کا فدیہ ادا کرنا درست نہیں ہے۔

اگر  روزوں کی ادائیگی پر قدرت حاصل ہونے کے بعد کوئی شخص زندگی میں روزے نہ رکھے تو ایسے شخص پر موت سے پہلے وصیت کرنا لازم ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے مال میں سے میرے اوپر واجب الادا قضا روزوں کا فدیہ ادا کردیا جائے، اگر کسی شخص کا انتقال ہوجائے اور اس کے ذمہ قضا روزے باقی ہوں تو اگر اس نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو ورثاء پر لازم ہوگا کہ اس کے ایک تہائی ترکہ  میں سے فی روزہ ایک فدیہ ادا کریں، لیکن ایک تہائی سے زائد سے فدیہ ادا کرنا واجب نہیں ہوگا، اسی طرح اگر اس نے وصیت ہی نہ کی ہو تو بھی ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم  نہیں، البتہ ادا کرنے سے ادا ہوجائے گا اور میت پر بڑا احسان ہوگا۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"من جامع عمداً في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولايشترط الإنزال في المحلين، كذا في الهداية. وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعةً، وإن كانت مكرهةً فعليها القضاء دون الكفارة... إذا أكل متعمداً ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة، وهذا إذا كان مما يؤكل للغذاء أو للدواء فأما إذا لم يقصد لهما فلا كفارة وعليه القضاء، كذا في خزانة المفتين ... وإذا أصبح غير ناو للصوم ثم نوى قبل الزوال ثم أكل فلا كفارة عليه، كذا في الكشف الكبير."

(كتاب الصوم، الباب الرابع فيما يفسد وما لا يفسد، النوع الثاني ما يوجب القضاء والكفارة،1/ 205 ، ط:دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوبا ولو في أول الشهر وبلا تعدد فقير كالفطرة لو موسرا وإلا فيستغفر الله ... ولو كان مسافرا فمات قبل الإقامة لم يجب الإيصاء، ومتى قدر قضى لأن استمرار العجز شرط الخلفية.

(قوله وللشيخ الفاني) أي الذي فنيت قوته أو أشرف على الفناء، ولذا عرفوه بأنه الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت نهر، ومثله ما في القهستاني عن الكرماني: المريض إذا تحقق اليأس من الصحة فعليه الفدية لكل يوم من المرض اهـ وكذا ما في البحر لو نذر صوم الأبد فضعف عن الصوم لاشتغاله بالمعيشة له أن يطعم ويفطر لأنه استيقن أنه لا يقدر على القضاء (قوله العاجز عن الصوم) أي عجزا مستمرا كما يأتي، أما لو لم يقدر عليه لشدة الحر كان له أن يفطر ويقضيه في الشتاء فتح (قوله ويفدي وجوبا) لأن عذره ليس بعرضي للزوال حتى يصير إلى القضاء فوجبت الفدية نهر، ثم عبارة الكنز وهو يفدي إشارة إلى أنه ليس على غيره الفداء لأن نحو المرض والسفر في عرضة الزوال فيجب القضاء وعند العجز بالموت تجب الوصية بالفدية... (قوله لم تجز الفدية) أي في حال حياته بخلاف ما لو أوصى بها كما مر تحريره ... (قوله لم يجب الإيصاء) عبر عنه الشراح بقولهم قبل " لم يجب " لأن الفاني يخالف غيره في التخفيف لا في التغليظ، وذكر في البحر أن الأولى الجزم به لاستفادته من قولهم إن المسافر إذا لم يدرك عدة فلا شيء عليه إذا مات ولعلها ليست صريحة في كلام أهل المذهب فلم يجزموا بها. اهـ.(قوله ومتى قدر) أي الفاني الذي أفطر وفدى ."

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم،2/ 427 ، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100557

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں