بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے کے فدیہ کا حکم


سوال

 اگر صحت کی خرابی کی  وجہ سے ہر روزے کے بدلے فدیہ دیتا ہوں تو فدیہ کس حساب سے دوں؟ جس ملک میں رہتا ہوں یا جس ملک میں فدیہ دیتا ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ جو شخص بڑھاپے یا دائم المریض ہونے کی وجہ سے روزے رکھنے پر قادر نہ ہو اور نہ ہی مستقبل میں اس کی صحت کی کوئی امید ہو تو ایسے شخص کو ہر روزے کے بدلے میں پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت بطورِ فدیہ دینی ہوگی، لیکن اس کے بعد اگر صحت یاب ہو گیا تو دوبارہ روزے قضاکرنا ضروری ہوگا، اور جو رقم فدیے میں دی وہ صدقہ شمار ہوگی،  عام بیماری جس میں صحت یابی کی امید ہو اس میں روزے کا فدیہ ادا کرنا درست نہیں ہے۔

لہذا صورت ِمسئولہ میں اگر سائل صحت کی خرابی کی وجہ سے رمضان المبارک شروع ہونے کے بعد روزے کے بدلہ فدیہ دینا چاہتا ہو اور اسے مستقبل میں  صحت کی امید بھی نہیں ہو تو سائل پر ہر روزے کے بدلہ پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت ادا کرنا لازم ہوگا اور  یہ  فدیہ سائل جس جگہ رہتا ہے وہاں کی قیمت کے اعتبار سے ادا کرے گا، البتہ جہاں بھی ادا کرنا چاہے  ادا کرسکتا ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(ومنها المرض) المريض إذا خاف على نفسه التلف أو ذهاب عضو يفطر بالإجماع، وإن خاف زيادة العلة وامتدادها فكذلك عندنا، وعليه القضاء إذا أفطر كذا في المحيط. ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض والاجتهاد غير مجرد الوهم بل هو غلبة ظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق كذا في فتح القدير. والصحيح الذي يخشى أن يمرض بالصوم فهو كالمريض هكذا في التبيين۔۔۔۔(ومنها: كبر السن) فالشيخ الفاني الذي لا يقدر على الصيام يفطر ويطعم لكل يوم مسكينا كما يطعم في الكفارة كذا في الهداية. والعجوز مثله كذا في السراج الوهاج. وهو الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت كذا في البحر الرائق. ثم إن شاء أعطى الفدية في أول رمضان بمرة، وإن شاء أخرها إلى آخره كذا في النهر الفائق.ولو قدر على الصيام بعد ما فدى بطل حكم الفداء الذي فداه حتى يجب عليه الصوم هكذا في النهاية"۔

(کتاب الصوم ،الباب الخامس فی الاعذار اللتی تبیح الإفطار ،ج:۱،ص:۲۰۷،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100170

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں