بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

روزہ کے مکروہ ہونے اور باطل ہونے کا مطلب اور قضا اور کفارہ کا طریقہ


سوال

 1۔  روزه مکروہ ہو جانےاور روزہ  باطل ہو جانے سے کیا مراد ہے ؟

 2 ۔ روزے کی قضاء اور روزے کا کفارہ کیسے ادا کرتے ہیں ؟

جواب

1۔ روزه مكروه ہونے سے مراد   روزہ کے ثواب میں کمی آجاناہے۔مثلاً روزہ کی حالت میں غیبت ، جھوٹ اور فحش گوئی وغیرہ کرنے سے اس کے ثواب میں کمی آجاتی ہے۔

اور روزہ باطل ہونے سے مراد روزہ ٹوٹ جانا ہے،  مثلاً روزہ کی حالت میں جان بوجھ کر کھانا، پینا اور بیوی سے مباشرت وغیرہ کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

جس شخص پر رمضان کے روزے کی قضا لازم ہو وہ سال میں پانچ دنوں  اور ماہِ رمضان کے علاوہ بقیہ ایام میں روزے کی قضا کرسکتاہے، پانچ دن جن میں روزہ رکھنا منع ہے وہ یہ ہیں: ایک دن عیدالفطر کا (یعنی یکم شوال)، اور چار دن ذوالحجہ کے مہینے میں لگاتار یعنی 10،11،12،13 ذوالحجہ ، ان مذکورہ پانچ دنوں کے علاوہ جس دن  قضا روزہ رکھنا چاہے اس  دن  کی صبحِ صادق کے طلوع سے پہلے (یعنی فجر کا وقت داخل ہونے سے پہلے)  روزے کی نیت کر لے، رات سے بھی روزے کی نیت کر سکتا ہے، اگر طلوعِ صبحِ صادق سے پہلے پہلے روزے کی نیت نہیں کی تو اس دن قضا روزہ رکھنا درست نہ ہو گا۔

رات کو نیت کرکے سوگیا اور سحری کے وقت آنکھ نہ کھلی تو بھی قضا روزہ درست ہوگا، کیوں کہ روزہ رکھنے کے لیے سحری کرنا شرط نہیں ہے، البتہ مستحب ہے۔

روزے کے کفارے کا طریقہ

وہ شخص جس میں روزہ فرض ہونے کی تمام شرائط پائی جاتی ہوں، رمضان کے اُس اَدا روزے میں جس کی نیت صبح صادق سے پہلے کرچکا ہو عمداً  روزہ توڑدے، یعنی بدن کے کسی جوف میں قدرتی یا مصنوعی منفذ  (Opening) سے کوئی ایسی چیز پہنچائے جو انسان کی غذا یا دوا کے طور پر استعمال ہوتی ہو یا جماع کرے یا کرائے ان تمام صورتوں میں روزہ ٹوٹ جائے گا اور روزے کی قضا کے ساتھ کفارہ بھی واجب ہوگا، اور اس فعل پر توبہ واستغفار بھی کرنا لازم ہوگی۔

کفارے  میں اس پر مسلسل ساٹھ روزے رکھنا مع ایک روزہ قضا ضروری ہوگا، اگر درمیان میں ایک روزہ بھی رہ جائے تو از سرِ نو رکھنا لازم ہوں گے،  اگر اس کی  قدرت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دینا لازم ہے ،  ایک صدقہ فطر کی مقدار  نصف صاع (پونے دو کلو ) گندم یا اس کی قیمت  ہے۔

ایک مسکین کو ساٹھ دن صدقہ فطر  کے برابر غلہ وغیرہ دیتا رہے یا ایک ہی دن ساٹھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کی مقدار دےدے ،  دونوں جائز ہے۔

صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا قیمت  دینے کے بجائے اگر ساٹھ مسکینوں کو ایک دن صبح وشام، یا ایک مسکین کو ساٹھ دن صبح وشام کھانا کھلادے، تو بھی کفارہ ادا ہوجائےگا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

" (عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من لم يدع") أي يترك "قول الزور" أي الباطل و هو ما فيه إثم، و الإضافة بيانية، و قال الطيبي: الزور الكذب و البهتان، أي من لم يترك القول الباطل من قول الكفر وشهادة الزور والافتراء والغيبة والبهتان والقذف والسب والشتم واللعن وأمثالها مما يجب على الإنسان اجتنابها ويحرم عليه ارتكابها " والعمل " بالنصب " به " أي بالزور يعني الفواحش من الأعمال لأنها في الإثم كالزور، و قال الطيبي: هو العمل بمقتضاه من الفواحش وما نهى الله عنه "فليس لله حاجة" أي التفات ومبالاة، وهو مجاز عن عدم القبول ينفي السبب وإرادة نفي المسبب "في أن يدع" أي يترك "طعامه وشرابه" فإنهما مباحان في الجملة، فإذا تركهما وارتكب أمرا حراما من أصله استحق المقت، وعدم قبول طاعته في الوقت، فإن المطلوب منه ترك المعاصي مطلقًا لا تركًا دون ترك، وكأن هذا مأخذ من قال: إن التوبة عن بعض المعاصي غير صحيحة، والصحيحة حصتها كما هو مقرر في محلها بناء على الفرق بين الصحة والقبول، فإنه لا يلزم من عدم القبول عدم الصحة بخلاف العكس، قال القاضي: المقصود من الصوم كسر الشهوة وتطويع الأمارة، فإذا لم يحصل منه ذلك لم يبال بصومه، ولم ينظر إليه نظر عناية، فعدم الحاجة عبارة عن عدم الالتفات والقبول، وكيف يلتفت إليه والحال أنه ترك ما يباح من غير زمان الصوم من الأكل والشرب وارتكب ما يحرم عليه في كل زمان؟ قال الطيبي: وفي الحديث دليل على أن الكذب والزور أصل الفواحش، ومعدن المناهي، بل قرين الشرك، قال - تعالى - {فاجتنبوا الرجس من الأوثان واجتنبوا قول الزور} [الحج: 30] وقد علم أن الشرك والزور مضاد للإخلاص، والصوم بالاختصاص فيرتفع بما يضاده (رواه البخاري) وفي معناه حديث الحاكم الذي صححه: " «ليس الصيام من الأكل والشرب فقط إنما الصيام من اللغو والرفث» "، ويؤخذ منه أن يتأكد اجتناب المعاصي على الصائم كما قيل في الحج، لكن لا يبطل ثوابه من أصله بل كماله، فله ثواب الصوم وإثم المعصية، وأما ما نقله البيهقي عن الشافعي واختاره بعض أصحابه من أنه يبطل بذلك ثوابه من أصله فيحتاج إلى دليل معين، وعليل مبين، وأما قول ابن حجر: يتأكد على الصائم أي من حيث الصوم فلاينافي كونه واجبًا من جهة أخرى أن يكف لسانه وسائر جوارحه من المباحات، وآكد من ذلك كف ما ذكر عن المعاصي بأسرها فغير صحيح، إذ الإجماع قائم على أن الكف عن المباحات غير واجب، بل قوله: يكره له شم الرياحين والنظر إليها ولمسها محتاج إلى نهي وارد مقصود كما هو مقرر."

(باب تنزیه الصوم :ج ٤،  ص ١٣٨٨، ط: دار الفكر)

فتاوٰ ی ہندیہ میں ہے:

"من جامع عمداً في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولايشترط الإنزال في المحلين، كذا في الهداية. وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعةً، وإن كانت مكرهةً فعليها القضاء دون الكفارة... إذا أكل متعمداً ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة، وهذا إذا كان مما يؤكل للغذاء أو للدواء فأما إذا لم يقصد لهما فلا كفارة وعليه القضاء، كذا في خزانة المفتين ... وإذا أصبح غير ناو للصوم ثم نوى قبل الزوال ثم أكل فلا كفارة عليه، كذا في الكشف الكبير".

(النوع الثاني باب ما یوجب القضاء والکفارة: ص 105، ج 1، ط : حقانیة)

فتاوی شامی میں ہے:

" وكفر أي مثلها في الترتيب فيعتق أولا فإن لم يجد صام شهرين متتابعين فإن لم يستطع أطعم ستين مسكينا لحديث الأعرابي المعروف في الكتب الستة ."

(کتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم : ص412، ج 2، ط : سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں