بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

روزہ رکھنے اور عید منانے کا مدار کس چیز پر ہے؟


سوال

سعودی عرب کے ساتھ روزہ، اور عید منانا کیسا ہے میں پاکستان میں مالاکنڈ سے تعلق رکھتا ہو ں؟

جواب

واضح رہے کہ شرعاًرمضان کا روزہ  رکھنےاورعید منانے کا مدار چاند دیکھنے پر ہے،اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاحادیث میں اس بات کی تاکیدفرمائی ہےکہ چاند نظر آنے پر روزہ رکھاجائے، اور چانددیکھ کرہی عید کی جائے،چوں کہ  ایک جگہ چاند نظر آنے پر چاند کادوسری جگہ  نظر آنا یقینی نہیں،تو ایسی صورت میں کیاکسی ایک علاقہ میں نظر آیاہواچاند دوسرے علاقہ یاملک والوں کے لیے روزہ رکھنے اور عید منانےکےلیے حجت بن سکتاہے یانہیں؟ اس متعلق راجح قول یہ ہےکہ اگر دونوں علاقے قریب قریب ہوں ،تو تب ایک علاقہ کا چاند دوسرے علاقہ والوں کے لیے حجت بن سکتاہے، اور ایسی صورت میں دونوں علاقے والوں پر ایک ساتھ روزہ رکھنا اورعید منانا ضروری ہے،اور اگر دونوں علاقے ایک دوسرے سے دورہوں، توایسی صورت میں ایک علاقہ کا نظرآیاہوا چاند دوسرے علاقے والوں کے لیے حجت نہیں ہوگا، اور اس صورت میں اس دوسرے علاقے والوں پر الگ سے چاند دیکھ کرروزہ رکھنا اورعید منانا لازم  ہوگا۔

نیز واضح رہے کہ جہاں پر مسلمانوں کی مستقل حکومت قائم ہو، اور حکومت کی طرف سےعلماءِ کرام کی نگرانی میں چاند دیکھنے کا اہتمام کیاجاتاہو، توحکومتِ وقت کے اعلان پر اعتبار کرکے روزہ اور عید منانے کا اہتمام کیاجائے،تاہم اگر کوئی اپنی آنکھوں سے چاند دیکھیں، اور پھر وہ متعینہ کمیٹی تک شہادت پہنچائیں، لیکن اس کی شہادت رد کی جائے، تو ایسے شخص پر احتیاطاً روزہ رکھنا ضروری ہے،لیکن اس کی اس شہادت کی بنیاد پر دیگر علاقے والوں پر روزہ رکھنا ضروری نہیں۔

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے سے بہت دور ہیں؛لہذا اِن دو ممالک میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کے تابع نہیں ،چنانچہ  جس ملک میں چاند نظر آجائے، وہاں کے مقیمین پر روزہ رکھنا اور عید منانالازم ہوگا۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " ‌صوموا ‌لرؤيته ") أي لأجل رؤية الهلال، فاللام للتعليل والضمير للهلال..." وأفطروا " أي اجعلوا عيد الفطر " لرؤيته " أي لأجلها أو بعدها أو وقتها ."

(كتاب الصوم، باب رؤية الهلال، ١٣٧٣/٤، ط:دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو صام أهل بلد ثلاثين يوما وصام أهل بلد آخر تسعة وعشرين يوما فإن كان صوم أهل ذلك البلد برؤية الهلال وثبت ذلك عند قاضيهم، أو عدوا شعبان ثلاثين يوما ثم صاموا رمضان فعلى أهل البلد الآخر قضاء يوم لأنهم أفطروا يوما من رمضان لثبوت الرمضانية برؤية أهل ذلك البلد، وعدم رؤية أهل البلد لا يقدح في رؤية أولئك، إذ العدم لا يعارض الوجود، وإن كان صوم أهل ذلك البلد بغير رؤية هلال رمضان أو لم تثبت الرؤية عند قاضيهم ولا عدوا شعبان ثلاثين يوما فقد أساءوا حيث تقدموا رمضان بصوم يوم.

وليس على أهل البلد الآخر قضاؤه لما ذكرنا أن الشهر قد يكون ثلاثين وقد يكون تسعة وعشرين، هذا إذا كانت المسافة بين البلدين قريبة لا تختلف فيها المطالع، فأما إذا كانت بعيدة فلا يلزم أحد البلدين حكم الآخر لأن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف فيعتبر في أهل كل بلد مطالع بلدهم دون البلد الآخر."

(كتاب الصوم، فصل شرائط أنواع الصيام، ٨٣/٢، ط:مطبعة شركة المطبوعات العلمية بمصر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100055

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں