بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

روضہ مبارک پر فون کے ذریعہ سلام پیش کرنے کا حکم


سوال

 سوال یہ ہےکہ کوئی عمرہ پر جارہاہے اور وہاں آپ ﷺ کے روضہ مبارک پر حاضری دینے کیلیۓ جاتاہے،یہاں سے کوئی فون کرے اور آپ ﷺ پرسلام کرے تو یہ کیساہے؟

جواب

اگر کوئی حج یا عمرہ پر جانے والے کو روضۂ  اطہر (على صاحبها ألف ألف صلاة و سلام) پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمتِ اقدس میں سلام اور شفاعت کی درخواست پیش کرنے کا کہتا ہے تو اس شخص کی طرف سے مذکورہ ذمہ داری قبول کرنے پر اس کہنے والے کا سلام پہنچانا امانتًاواخلاقاً واجب ہوجاتا ہے۔ اور وہ شخص جب روضۂ  اطہر پر پہنچے تو پہلے اپنی طرف سے صلاۃ و سلام پیش کرنے کے بعد، پھر اس کہنے والے کی طرف سے درج ذیل الفاظ سے سلام پیش کرے گا اور شفاعت کی درخواست کرے گا:

"اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ مِنْ فلان بن فلان يَتَشَفَّعُ بِكَ إِلٰى رَبِّكَ فَاشْفَعْ لَهٗ وَ لِلْمُسْلِمِيْنَ."

ترجمہ: یارسول اللہ! آپ پر فلاں بن فلاں(لفظ فلاں کی جگہ سلام بھیجنے والے کا نام لیا جائے) کی طرف سے سلام ہے، جو آپ کے رب کی بارگاہ میں آپ کی شفاعت کا امیدوار ہے، آپ اس کی  اور تمام مسلمانوں  کی شفاعت  فرمائیے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپس میں ایک دوسرے کو سلام بھجواتے تھے، اور  سلام لے جانے والا  پھر یوں سلام کرتا کہ فلاں صاحب نے آپ کو سلام بھجوایا ہے، اور جواب میں اس سے کہا جاتا کہ آپ پر بھی سلام اور اس بھیجنے والے پر بھی سلام۔محمد ابن منکدر رحمہ اللہ کا واقعہ ہے کہ وہ ایک مرتبہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے انتقال کے وقت  حاضر ہوئےاور حضور علیہ السلام کو سلام پیشکرنے کی درخواست کی ۔نیز تابعین  کے زمانہ میں ایسے واقعات ملتے ہیں ،جن سے کسی دوسرے کی طرف سے روضہ مبارک پر سلام پیش کرنے کی گنجائش نکل آتی ہے،جیساکہ خفاجی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سلف کا طریقہ کار رہا ہے کہ وہ آپ علیہ السلام کی خدمت میں سلام پیش کروایا کرتے تھے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی یہی طریقہ کار رہا کہ وہ آپ علیہ السلام اور ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی خدمت میں سلام بھجوایا کرتے تھے۔حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے باقاعدہ سلام کا بھیجنا ثابت ہے۔یزید المہدی کہتے ہیں کہ جب میں نے عمر بن عبدالعزیز سے اجازت چاہی تو انہوں نے فرمایا کہ میری ایک حاجت ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تم آپ علیہ السلام کی قبر پر حاضر ہو تو میرا سلام عرض کردینا۔اسی طرح حاتم بن وردان کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ باقاعدہ لوگوں کو سلام پیش کرنے کیلئے شام سے مدینہ منورہ روانہ کرتے تھے  ۔ یہ زمانہ تابعین کے شروع کا زمانہ تھااور ان میں سے کسی نے بھی اس سے متعلق نکیر نہیں فرمائی ۔نیز صحیح احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام اپنی قبورِ مبارکہ میں حیات ہیں، اور احادیثِ مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے روضۂ  اطہر کے سامنے کھڑا ہوکر سلام پیش کرتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اسے خود سنتے ہیں اور اس کا جواب بھی دیتے ہیں اور جو شخص دور سے ہی سلام کہتا ہے تو فرشتوں کے ذریعہ وہ سلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچا دیا جاتا ہے۔ بلکہ امتیوں کی طرف سے رسول اللہ ﷺ تک درود و سلام پہنچانے کے لیے مستقل طور پر فرشتے  مقرر ہیں، وہ زمین میں سیاحت کرتے رہتے ہیں اور جو امتی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام بھیجتا ہے،وہ فرشتے اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچا دیتے ہیں۔لہٰذا جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ توفیق دیتے ہیں، وہ براہِ راست روضہ اقدس پر حاضر ہوکر صلاۃ و سلام پیش کرتے ہیں۔اس کا طریقہ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریاؒنے اپنی کتاب فضائل حج میں یہ ذکر کیا ہےکہ:"سلام پیش کرنے والا دیوار سے تین چار گز کے فاصلہ پر کھڑا ہو،زیادہ قریب نہ ہو کہ ادب کے خلاف ہے،اور نگاہ نیچی رہنی چاہیےاِدھر اُدھردیکھنا اس وقت سخت بے ادبی ہے۔ہاتھ پاؤں بھی ساکن اور وقار سے رہیں۔یہ خیال کرے کہ چہرہ انور اس وقت میرے سامنے ہے۔حضور اقدسﷺکو میری حاضری کی اطلاع ہے،حضورﷺکی عُلُوّشان اور عُلُوّمَرتَبَت کا استحضارپوری طرح سے دل میں ہو"۔(فضائل حج،ص:142،ط:کتب خانہ فیضی لاہور)

لیکن جو لوگ خود براہِ راست نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر نہیں ہو پاتے،ان کے لیے جائز ہے کہ وہ  زائرینِ حرمین شریفین سے بارگاہِ اقدس میں سلام پیش کرنے کی عاجزانہ درخواست  کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے روضہ اطہر تک اپنا سلام پہونچائے، اگرچہ امتیوں کا سلام فرشتوں کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچ رہا ہوتا ہے،لیکن  فون کرکے  ذکر کردہ طریقہ سے سلام پیش کرنے کی کوئی نظیر شریعت میں نہیں ملتی،لہذا روضہ اقدس میں سلام پیش کرنے والوں کو فون کر کے فون کا اسپیکر آن کر واکر فون پر سلام پیش کرنا نامناسب طریقہ بلکہ ایسا   کرنا ادب کےبھی خلاف ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"باب إذا قال: فلان يقرئك السلام: حدثنا أبو نعيم، حدثنا زكرياء، قال: سمعت عامرا، يقول: حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أن عائشة رضي الله عنها، حدثته: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لها: «إن جبريل يقرئك السلام» قالت: وعليه السلام ورحمة الله."

(کتاب الاستئذان،ج:5،ص:2307،رقم:5898،ط:دار ابن كثير،دار اليمامة دمشق)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أنس بن مالك، أن فتى من أسلم قال: يا رسول الله، إني أريد الغزو وليس معي ما أتجهز، قال: «ائت فلانا، فإنه قد كان تجهز، فمرض»، فأتاه، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرئك السلام، ويقول: أعطني الذي تجهزت به، قال: يا فلانة، أعطيه الذي تجهزت به، ولا تحبسي عنه شيئا، فوالله، لا تحبسي منه شيئا، فيبارك لك فيه."

(کتاب الامارۃ،‌‌باب فضل إعانة الغازي في سبيل الله۔۔۔الخ،ج:3،ص:1506،رقم:1894،ط:دار إحياء التراث العربي بیروت)

مصنف ابن أبي شيبةمیں ہے:

"حدثنا أبو بكر قال: حدثنا إسماعيل ابن علية، عن غالب، قال: إنا لجلوس بباب الحسن إذ جاءه رجل، فقال: حدثني أبي عن جدي، قال: بعثني أبي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ائته فأقرئه السلام، فأتيته فقلت: إن أبي يقرئك السلام، فقال: «وعليك، وعلى أبيك السلام»."

(کتاب الادب،‌‌في الرجل يبلغ الرجل السلام ما يقول له،ج:5،ص:243،رقم:25691،ط: مكتبة الرشد - الرياض/مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة)

شعب الإيمان للبيهقي میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صلى علي عند قبري وكل بها ملك يبلغني، وكفي بها أمر دنياه وآخرته، وكنت له شهيدا أو شفعيا " هذا لفظ حديث الأصمعي، وفي رواية الحنفي قال: عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من صلى علي عند قبري سمعته، ومن صلى علي نائيا أبلغته."

(باب في تعظيم النبي صلى الله عليه وسلم وإجلاله وتوقيره صلى الله عليه وسلم، ج:3،ص:141،رقم:1481،ط:مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض)

وفیہ ایضا:

"عن عبد الله بن السائب، عن زاذان، عن ابن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إن لله ملائكة سياحين في الأرض يبلغوني عن أمتي السلام"

(باب في تعظيم النبي صلى الله عليه وسلم وإجلاله وتوقيره صلى الله عليه وسلم، ج:3،ص:140،رقم:1480،ط:مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض)

مسند احمد میں ہے:

"أخبرني محمد بن المنكدر قال: دخلت على جابر بن عبد الله وهو يموت، فقلت له: أقرئ رسول الله صلى الله عليه وسلم مني السلام."

(ج:18،ص:201،رقم:11660،ط:مؤسسة الرسالة)

نسیم الریاض  فی شرح شفاء القاضی عیاض میں ہے:

"وذكر الخفاجى: كان من دأب السلف أنهم يرسلون السلام إلى رسول الله وكان ابن عمر يفعله ويرسل له عليه الصلاة والسلام ولأبى بكر وعمر رضي الله عنهما"

(فصل في حكم زيارة قبره صلى الله عليه وسلم وفضيلة۔۔۔،ج:3،ص:516،ط:دارالکتاب العربی بیروت لبنان)

شرح الشفاء میں ہے:

"وعن يزيد بن أبي سعيد المهريّ۔۔۔(قدمت على عمر بن عبد العزيز فلما ودعته قال: لي إليك حاجة) أي وهي إنك (إذا أتيت المدينة سترى قبر النبي صلى الله تعالى عليه وسلم) أي حقيقة أو مجازا وهو محله وحوله (فأقره مني السلام)۔۔۔قال غيره) أي غير المهري وهو حاتم بن وردان كما رواه البيهقي في شعب الإيمان (وكان) أي عمر بن عبد العزيز (يبرد)۔۔۔أي يوجه ويسير (إليه البريد من الشام) أي إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم القاصد من الشام ليقرأه منه السلام."

(‌‌الباب الرابع في حكم الصلاة عليه صلى الله تعالى عليه وسلم۔۔۔،‌‌فصل في حكم زيارة قبره صلى الله عليه وسلم وفضيلة۔۔۔،ج:2،ص:153،ط:دارالکتب العلمیۃ بیروت)

فتح الباري لابن حجر میں ہے:

"ومن شواهد الحديث ما أخرجه أبو داود من حديث أبي هريرة رفعه وقال فيه وصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم سنده صحيح وأخرجه أبو الشيخ في كتاب الثواب بسند جيد بلفظ من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا بلغته وعند أبي داود والنسائي وصححه بن خزيمة وغيره عن أوس بن أوس رفعه في فضل يوم الجمعة فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي قالوا يا رسول الله وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت قال إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء."

(باب قول الله تعالى واذكر في الكتاب مريم إذ انتبذت من أهلها،ج:6،ص:488،ط:دار المعرفة - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو قال لآخر: أقرئ فلانا السلام يجب عليه ذلك.

(قوله: يجب عليه ذلك) لأنه من إيصال الأمانة لمستحقها، والظاهر أن هذا إذا رضي بتحملها تأمل. ثم رأيت في شرح المناوي عن ابن حجر التحقيق أن الرسول إن التزمه أشبه الأمانة وإلا فوديعة اهـ. أي فلا يجب عليه الذهاب لتبليغه كما في الوديعة قال الشرنبلالي: وهكذا عليه تبليغ السلام إلى حضرة النبي صلى الله عليه وسلم عن الذي أمره به؛ وقال أيضًا: ويستحب أن يرد على المبلغ أيضا فيقول: وعليك وعليه السلام اهـ. ومثله في شرح تحفة الأقران للمصنف، وزاد وعن ابن عباس يجب اهـ. لكن قال في التتارخانية ذكر محمد حديثا يدل على أن من بلغ إنسانا سلاما عن غائب كان عليه أن يرد الجواب على المبلغ أولا ثم على ذلك الغائب اهـ. وظاهره الوجوب تأمل."

(فصل فی البیع،ج:6،ص:415،ط:دار الفكر- بيروت)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے:

’’وتبلغه سلام من أوصاك به فتقول: السلام عليك يا رسول الله من فلان بن فلان يتشفع بك إلى ربك فاشفع له وللمسلمين.

قوله: "وتبلغه سلام من أوصاك" ذكروا أن تبليغ السلام واجب لأنه من أداء الأمانة.‘‘

 (‌‌فصل زيارة النبي صلى الله عليه وسلم،ص:749/748،ط:دارالكتب العلمية - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100576

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں