بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزہ کب فرض ہوتا ہے؟


سوال

روزے کس عمر سے فرض ہیں ؟ میرا بیٹا 11سال کا ہے اور وہ اپنی مرضی سے شوق سے روزے رکھتا ہے نماز اور قرآن بھی پڑھتا ہے ۔ روزے رکھنے دیں اسے یا جب فرض ہوں پھر رکھوائیں؟

جواب

واضح رہے کہ روزہ بالغ پر فرض ہوتا ہے ، اگر پندرہ سال کی عمر سے پہلے ہی بلوغت کی  کوئی علامت  احتلام وغیرہ ظاہر ہوجائے تو اسی وقت سے روزہ فرض ہوجائے گا ، لیکن اگر کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو لڑکا اور لڑکی دونوں قمری حساب سے پندرہ سال کی عمر پوری ہونے پر بالغ سمجھے جائیں گے اور جس دن سولہواں سال شروع ہوگا اس دن سے ان پر نماز روزہ وغیرہ فرض ہوگا۔

 صورتِ مسئولہ میں اگر چہ بچے کی عمر گیارہ سال ہےتو  روزے فرض نہیں ہے لیکن  ایک حدیث میں سات سال کی عمر سے بچوں کو نماز کی ترغیب کا اور دس سال کی عمر میں نہ پڑھنے پر کچھ تھوڑی سی مار کا حکم ہے، تاکہ بلوغت سے پہلے بچوں کی نماز پڑھنے کی عادت بن جائے، تو روزے میں بھی بلوغت سے پہلے اگر بچہ خوشی سے روزہ رکھ رہا ہے، اور صحت پر اثر نہیں پڑتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئےاور روزے نہیں چھڑوانے چاہئے ،بلکہ بقدرِ طاقت دس سال کے بعد روزہ رکھنے کی تاکید کرنی چاہئے، تاکہ بلوغت کے بعد روزہ رکھنے میں دشواری نہ ہو۔اور اس میں مناسب یہ ہے کہ اب نابالغ لڑکا اگر پورے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے تو ایک دن چھوڑ کر روزے رکھتا رہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌بلوغ ‌الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال) والأصل هو الإنزال (والجارية بالاحتلام والحيض والحبل) ولم يذكر الإنزال صريحا لأنه قلما يعلم منها (فإن لم يوجد فيهما) شيء (فحتى يتم لكل منهما خمس عشرة سنة به يفتى) لقصر أعمار أهل زماننا"

(فصل بلوغ الغلام بالإحتلام، ج:6، ص:153، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (‌بلوغ ‌الغلام بالاحتلام، والإحبال، والإنزال وإلا فحتى يتم له ثمانية عشر سنة)"

(كتاب المأذون، ج:8، ص:96،ط: دار الكتاب الإسلامي)

ابو داؤد میں ہے:

"حدثنا ‌مؤمل بن هشام، يعني اليشكري، ثنا ‌إسماعيل ، عن ‌سوار أبي حمزة، قال أبو داود: وهو سوار بن داود أبو حمزة المزني الصيرفي، عن ‌عمرو بن شعيب ، عن ‌أبيه ، عن ‌جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌مروا ‌أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر سنين، وفرقوا بينهم في المضاجع»"

(باب متى يؤمر الغلام بالصلاة، ج:1، ص:185، ط: المطبعة الأنصارية بدهلي الهند)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101371

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں