بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 ذو الحجة 1446ھ 14 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

روضہ اقدس پر حاضری کے آداب اور صلاۃ و سلام کا طریقہ


سوال

۱)روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دینے کے کیا آداب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کن الفاظ سے پیش کرنا احادیث سے ثابت ہے؟

۲)حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما پر سلام کس طرح اور کن الفاظ سے پیش کریں؟ احادیث میں الفاظ آئے ہیں؟

۳)نیز دور سے سلام یعنی روضہ کےباہر سے سلام پیش کرنے کا طریقہ و آداب بھی بتائیں اور مسجد نبوی کے اندر روضہ کے پیچھے کی طرف سے یعنی اس طرح سلام پیش کرنا کہ روضہ اور قبلہ دونوں ایک طرف ہوں،کیسا ہے؟

۴)نیز وہاں سلام کے ساتھ ساتھ اشعار وغیرہ پڑھنا کیسا ہے؟

۵)اور کیا دعائیں مانگنی چاہییں؟ کون سی دعائیں؟احادیث مبارکہ میں ایسے موقع پر کون سی دعائیں مانگنے کی ترغیب آئی ہے؟نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے کیا کیا اور کس طرح یعنی کس زبان میں مانگنا چاہیے؟صرف عربی یا اپنی مادری زبان میں بھی مانگ سکتے ہیں؟

جواب

۱) جب روضہ اقدس (علی صاحبھا الف الف صلاۃ و سلام) کی طرف جائے تو راستہ میں درود شریف کثرت سے پڑھے،  اور خوب ذوق و شوق پیدا کرے اور اظہار محبت میں کوئی کمی نہ چھوڑے۔ اگر خود یہ حالات پیدا نہ ہوں تو بتکلف پیدا کرے اور عاشقوں کی  سی صورت  ہی بنا لے۔نہایت ادب کے ساتھ روضہ اقدس پر حاضر ہواور دل کو تمام دنیاوی خیالات سے فارغ کردے ، پھر روضہ اقدس کی طرف رخ کر کے قبلہ کی طرف پشت کر کے  مواجھہ شریف کے سامنے آ جائے۔ ادھر ادھرمت دیکھے، نظر نیچی رکھے اور کوئی حرکت خلاف ادب نہ کرے۔ زیادہ قریب بھی نہ کھڑے ہو اور جالی کو ہاتھ بھی نہ لگائے، نہ بوسہ دے، نہ سجدہ کرے، کہ اس قسم کی با تیں خلاف ادب و احترام اور نا جائز ہیں اور سجدہ کرنا شرک ہے۔ اور یہ خیال کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر شریف میں قبلہ کی طرف منہ کئے ہوئے آرام فرما ہیں اور سلام و کلام کو سنتے ہیں اور سلام کا جواب دیتے ہیں اور عظمت و جلال کا لحاظ کرتے ہوئے متوسط آواز سے سلام پڑھے۔ زیادہ زور سے مت بولے اور بالکل آہستہ سے بھی مت پڑھے ، سلام اس طرح پڑھے :

السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا حَبِيبَ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا خَيْرَ خَلْقِ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا خَيْرَةَ اللَّهِ مِنْ جَمِيعِ خَلْقِ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا سَيِّدِ وُلْدِ آدَمَ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ ، يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَةَ، وَأَدَّيْتَ الْأَمَانَةَ، وَنَصَحْتَ الْأُمَّةَ وَ كَشَفْتَ الْغُمَّةَ، فَجَزَاكَ اللَّهُ عَنَّا خَيْرًا، جَزَاكَ اللَّهُ عَنَّا أَفْضَلَ وَ أَكْمَلَ مَا جَزَى بِهِ نَبِيًّا عَنْ أُمَّتِهِ. اللَّهُمَّ آتِهِ الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَالدَّرَجَةَ الرَّفِيعَةَ وَابْعَثُهُ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ الَّذِي وَعَدْتَهُ ، إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ، وَأَنْزَلُهُ الْمَنْزِلَ الْمَقَرَّبَ عِندَكَ إِنَّكَ سُبْحَانَكَ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ.

ان الفاظ میں کمی زیادتی بھی کرسکتے ہیں۔(مستفاد: معلم الحجاج)

البتہ  احادیث مبارکہ میں ایسے  مخصوص کلمات ہمیں نہیں مل سکے جوخود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر مبارک پر حاضری کے وقت صلاۃ و سلام پیش کرنے کے لیے سکھائے ہوں۔

۲)حضور اقدس صلی اللہ علیہ  وسلم پر  صلاۃ و سلام پڑھنے کے بعد ایک ہاتھ داہنی طرف کو ہٹ کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ  عنہ کے کی قبر کی جالی کے سامنے کھڑے ہو کر اس طرح سلام پڑھے:

السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا خَلِيفَةَ رَسُولَ اللَّهِ وِثَانِيهِ فِي الْغَارِ وَرَفِيقَه فِي الْأَسْفَارِ وَأَمِيْنِهِ عَلَى الْأَسْرَارِ أَبَا بَكْرِ الصِّدِّيقِ، جَزَاكَ اللَّهُ عَنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ خَيْرًا.

پھر ایک ہاتھ اور داہنی طرف کو ہٹ کر حضرت عمر  فاروق رضی اللہ  عنہ کے کی قبر کی جالی کے سامنے  کھڑے ہو کران الفاظ سے سلام پڑھے:

السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ الْفَارُوقِ الَّذِي أَعَزَّ اللَّهُ بِهِ الإسلامَ إِمَامَ الْمُسْلِمِينَ مَرْضِيًّا حَيًّا وَ مَيْتًا جَزَاكَ اللَّهُ عَنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ خَيْرًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ان دونوں حضرات پر سلام کے الفاظ میں بھی کمی زیادتی کا اختیار ہے۔

۳) روضہ اقدس کی پشت سے بھی اسی طرح مخاطب کے الفاظ کے ساتھ صلاۃ و سلام پیش کر سکتے ہیں جس طرح مواجھہ شریف سے کر سکتے ہیں۔

۴)واضح رہے کہ روضہ اقدس پر حاضری نہایت ہی ادب کا مقام ہے، اور عشق و محبت کا بھی۔لہٰذا آداب کی رعایت رکھتے ہوئے اگر کوئی مسلمان فرط محبت میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اشعار کے انداز میں عرض و گزارش کرے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔بلکہ اسلاف سے ثابت بھی ہے۔ البتہ اس بات کا خیال رہے کہ آج کل رش کی وجہ سے وہاں انتظامیہ زیادہ دیر کھڑے ہونے سے منع کرے یا لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہو، تو مواجھہ شریف پر زیادہ دیر نہ ٹھہرا جائے بلکہ روضہ رسول کے آس پاس جہاں باآسانی جگہ ملے، وہاں اطمینان سےبارگاہِ رسالت میں جو عرض کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔

الأذکار للنووی میں ہے:

١٠٦٩- وعن العتبي، قال: كنت جالسا عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء أعرابي، فقال: السلام عليك يا رسول الله! سمعت الله تعالى يقول: {ولو أنهم إذ ظلموا أنفسهم جاءوك فاستغفروا الله واستغفر لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحيما} [النساء: ٦٤] وقد جئتك مستغفرا من ذنبي، مستشفعا بك إلى ربي؛ ثم أنشد يقول من البسيط:

يا خير من دفنت بالقاع أعظمه ... فطاب من طيبهن القاع والأكم

نفسي الفداء لقبر أنت ساكنه ... فيه العفاف وفيه الجود والكرم

قال: ثم انصرف، فحملتني عيناي، فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم في النوم، فقال لي: "يا عتبي! الحق الأعرابي، فبشره بأن الله تعالى قد غفر له". والله عز وجل أعلم.

(كتاب الأذكار للنووي، أذكار الحج  فصل في زيارة قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم وأذكارها، ص: 352، ط: دار ابن حزم)

۵)  روضہ اقدس پر حاضری کے موقع پر کوئی مخصوص دعا احادیث میں وارد نہیں ہوئی،  اس لیے  صلاۃ و سلام پیش کرنے کے قبلہ رو ہو کر جو چاہیں دعا منگیں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے بھی جو مانگنا چاہیں اور جس زبان میں چاہیں  مانگ سکتے ہیں۔

ذریعۃ الوصول میں شیخ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ، علامہ سخاوی ؒ کے حوالے سےروضہ اقدس پر حاضری کے وقت  کیا کلمات کہنے چاہئیں، ان کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

"بعد ازاں اپنے لئے اور اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے لئے دُعا کرے، اس کے بعد حضرت ابوبکر، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں سلام عرض کرے، اور بارگاہ الہی میں دُعا کرے۔"

(ذریعۃ الوصول الی جناب الرسول، روایت نمبر: 94، ص: 134، مکتبہ لدھیانوی)

غنية الناسك في علم المناسك  میں ہے:

"و ينبغي أن ينوي مع زيارته صلى الله عليه وسلم التقرب إلى الله تعالى بالمسافرة إلى مسجده صلى الله عليه وسلم للصلاة فيه، و يستحب أن يغتسل قبل دخوله ويلبس أنظف ثيابه. إذا وصل باب المسجد، قدم اليمنى دخولا، واليسرى خروجا و فعل ما يفعل في سائر المساجد من الصلاة علي النبي صلي الله عليه وسلم، والسلام عليه، و يقول: "اللهم افتح لي ابواب رحمتك"، ثم يقصد الروضة الكريمة وهي ما بين المنبر والقبر فيصلي تحية المسجد بجنب المنبر، ان تيسر و الا حيث كان من المسجد.... قال محي الدين النووي - رحمه الله تعالي- : فإذا صلى التحية في الروضة أو غيرها من المسجد شكر الله تعالى على هذه النعمة ويسأله إتمام ما قصده وقبول زيارته، ثم يأتي القبر الكريم فيستدبر القبلة ويستقبل جدار القبر، ويبعد من رأس القبر نحو أربعة أذرع. و في احياء علوم الدين: أنه يستقبل جدار القبر على نحو أربعة أَذرع من السارية التي عند رأس القبر في زاوية جداره ويجعل القنديل الذي في القبلة عند القبر على رأسه ويقف ناظرًا إلى أسفل ما يستقبله من جدار القبر غاض الطرف في مقام الهيبة والإجلال فارغ القلب من علائق الدنيا مستحضرًا في قلبه جلالة موقفه ومنزلة من هو بحضرته، ثم يسلم ولا يرفع صوته بل يقتصد فيقول: "السلامُ عليك يا رسول الله، السلامُ عليك يا نبي الله، السلامُ عليك يا خِيرة الله، السلامُ عليك يا خَيْر خلقِ الله، السلامُ عليك يا حبيبَ الله، السلامُ عليك يا نذير، السلامُ عليك يا بشير، السلامُ عليك يا طاهر، السلامُ عليك يا نبيَّ الرحمة، السلامُ عليك يا نبيَّ الأمة، السلامُ عليك يا أبا القاسم، السلامُ عليك يا رسولَ ربّ العالمين، السلامُ عليكَ يا سيدَ المرسلين وخاتمَ النبيين، السلامُ عليك يا خَيْرَ الخلائق أجمعين، السلامُ عليك يا قائد الغُرّ المُحَجَّلِينَ، السلامُ عليك وعلى ءالك وأهلِ بيتك وأزواجِك وذريتِك وأصحابِك أجمعين، السلامُ عليك وعلى سائر الأنبياءِ وجميع عبادِ الله الصالحين، جزاك الله يا رسولَ الله عنا أفضلَ ما جزى نبيًّا ورسولا عن أمتهِ وصلى الله عليكَ كلما ذكركَ ذاكر وغفلَ عن ذكرك غافلٌ أفضلَ وأكملَ وأطيبَ ما صلى على أحد من الخلق أجمعين، أشهد أن لا إله إِلا الله وحده لا شريك له وأشهد أنك عبده ورسولُهُ وخِيرتُهُ من خلقهِ، وأشهدُ أنك قد بلّغتَ الرسالةَ وأدّيتَ الأمانةَ ونصحتَ الأمةَ وجاهدتَ في الله حقَّ جهاده، اللهم وءاته الوسيلةَ والفضيلةَ وابعثْه مقامًا محمودًا الذي وعدته" ثم يقول: "اللهمَّ صلّ على محمّد عبدِك ورسولِك النبيّ الأُمّي وعلى ءال محمد وأزواجِه وذريته كما صليتَ على إبراهيمَ وعلى ءال إبراهيم، وباركْ على محمد النبيّ الأُمي وعلى ءال محمد وأزواجِه وذريتِهِ كما باركت على إبراهيمَ وعلى ءال إبراهيمَ في العالمين إنكَ حميدٌ مجيد"، ... قال الشيخ محي الدين النووي: ومن عجز عن حفظ هذا أو ضاق وقته عنه اقتصر على بعضه، وأقله السلام عليك يا رسول الله صلى الله عليه وسلم".

( الفصل الثالث في حكم زيارة النبي صلي الله عليه وسلم، و آدابها و ما يتعلق بها، ص: 365-368، ط: دار ابن حزم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611101598

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں