بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بلند آواز سے سلام کہنے کا حکم


سوال

کیا روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر آہستہ آواز میں یا دل میں  دعا کی درخواست کرنا اور سلام پیش کرنا کافی ہے، یا اونچی آواز میں کہا جائے  تاکہ قبر مبارک تک آواز جائے؟

جواب

واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت اور ان سے وابستہ ہر ایک چیز  میں ادب و آداب کاپاس و لحاظ رکھنا ہر مسلمان  مرد و عورت پر لازم  ہے ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک بھی انتہائی ادب کا مقام ہے،  جس کی حاضری کے کچھ آداب ہیں، ان آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ وہاں سلام و دعا میں آواز  زیادہ بلند نہ ہو۔

فرمان باری تعالیٰ ہے :

{ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ } (سورة الحجرات، آیت نمبر :2 )

 ترجمہ:" اے ایمان والو  تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور نہ ان سے ایسے کھل کر بولا کرو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے سے بولا کرتے ہو کبھی تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو ۔"(بیان القرآن)

لہذا صورتِ  مسئولہ میں  روضۂ  رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری کے وقت  اونچی آواز  سے سلام کہناادب کے خلاف ہے ۔ادب کا تقاضہ تو یہ  ہے  پست آواز میں درود و سلام پیش کرکے عاجزی و انکساری کے ساتھ شفاعت کی درخواست کی جائے ۔ اور اگر سلام پیش کرنے کے بعد  وہیں کھڑے ہو کر دعا کرنا، دوسروں کے لیے ایذا رسانی کا باعث ہو تو اس صورت میں ادب سے سلام پیش کرکے آگے بڑھ جانا چاہیے، اور پھر قبلہ رخ ہوکر  دعا کرنی  چاہیے۔

تیسیر العلام شرح عمدۃ الاحکام میں ہے :

"يكره عنده ‌رفع ‌الصوت ‌بالسلام والترحم والدعاء، فقد قال الله تعالى:  یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ".

(تیسیر العلام شرح عمدۃ الاحکام  ،کتاب الحج، ص:445)

غنیۃ الناسک فی علم المناسک میں ہے :

"و ينبغي أن ينوي مع زيارته صلى الله عليه وسلم التقرب إلى الله تعالى بالمسافرة إلى مسجده صلى الله عليه وسلم للصلاة فيه، و يستحب أن يغتسل قبل دخوله ويلبس أنظف ثيابه. إذا وصل باب المسجد، قدم اليمنى دخولا، واليسرى خروجا و فعل ما يفعل في سائر المساجد من الصلاة علي النبي صلي الله عليه وسلم، والسلام عليه، و يقول: "اللهم افتح لي ابواب رحمتك"، ثم يقصد الروضة الكريمة وهي ما بين المنبر والقبر فيصلي تحية المسجد بجنب المنبر، ان تيسر و الا حيث كان من المسجد.... قال محي الدين النووي - رحمه الله تعالي- : فإذا صلى التحية في الروضة أو غيرها من المسجد شكر الله تعالى على هذه النعمة ويسأله إتمام ما قصده وقبول زيارته، ثم يأتي القبر الكريم فيستدبر القبلة ويستقبل جدار القبر، ويبعد من رأس القبر نحو أربعة أذرع. و في احياء علوم الدين: أنه يستقبل جدار القبر على نحو أربعة أَذرع من السارية التي عند رأس القبر في زاوية جداره ويجعل القنديل الذي في القبلة عند القبر على رأسه ويقف ناظرًا إلى أسفل ما يستقبله من جدار القبر غاض الطرف في مقام الهيبة والإجلال فارغ القلب من علائق الدنيا مستحضرًا في قلبه جلالة موقفه ومنزلة من هو بحضرته، ثم يسلم و لايرفع صوته بل يقتصد فيقول: "السلامُ عليك يا رسول الله، السلامُ عليك يا نبي الله".

(غنیۃ الناسک فی علم المناسک ،الفصل الثالث في حكم زيارة النبي صلي الله عليه وسلم، و آدابها و ما يتعلق بها، ص: ٣٦٥ - ٣٦٨، ط: دار ابن حزم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101442

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں