بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روٹ پر گاڑی چلانے کے لیے ٹوکن کی خریدوفروخت کا حکم


سوال

شہر کراچی کے مختلف علاقوں میں سی این جی رکشوں کے کافی اڈے قائم ہو چکے ہیں ، جن کے لیے باقاعدہ ایک روٹ مقرر کیا جاتا ہے ،اور اس روٹ پہ گاڑی چلانے کے لیے اڈہ مالکان سے ٹوکن نمبر خریدنا پڑتا ہے ۔

مفتیان کرام سے ان اڈوں میں پیش آمدہ شرعی مسائل کے بارے میں درجہ ذیل امور کے متعلق شرعی رہنمائی دریافت کرنی ہے ۔

1 : اس ٹوکن نمبر کو کسی طریقہ سے فروخت کرنا یا کرایہ پر دینے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

2 : مذکورہ دونوں صورتوں میں حاصل شدہ کمائی کا شرعاً کیا حکم ہے ؟

3 : ٹوکن نمبر سمیت گاڑی کو ذاتی قیمت سے زیادہ رقم کے عوض فروخت کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

4 : پانچ لاکھ قیمت کی گاڑی کو سات لاکھ کے عوض اس شرط یا امید پر خریدنا کہ ٹوکن نمبر بغیر کسی عوض کے مالک حوالہ کرے گا ؟

مذکورہ معاملات باقاعدہ مروج ہیں، عدم جواز کی صورت میں کوئی متبادل صورت ممکن ہے یا نہیں ؟ 

جواب

1/2-واضح رہے کہ ٹوکن نمبر کی حیثیت ایک اجازت نامہ اور حق مجرد  کی ہے،اور شرعا حقوق مجردہ کی بیع ناجائز ہے۔

3-ٹوکن والی گاڑی  کو زیادہ قیمت کے عوض فروخت کرنا شرعا درست ہے۔

4-اس شرط پر پانچ لاکھ والی گاڑی کو سات لاکھ کی خریدنا کہ وہ ٹوکن والی ہوگی یا گاڑی اور ٹوکن دونوں کو سات لاکھ میں خریدنا بھی جائز ہے ۔

در مختار میں ہے :

"و في الأشباه: لايجوز الإعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة وعلى هذا لايجوز الإعتياض عن الوظائف بالأوقاف."

(مطلب فی بیع الجامکیۃ، ج:4،ص:518، ط:سعید)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"لأن ‌الأوصاف بالتناول ‌تصير ‌مقصودة ويقابلها حصة من الثمن سواء تناولها البائع أو المشتري."

(باب قبض المأذون في البيوع، ج:25، ص:181، ط:دار المعرفة)

الاصل لمحمد بن الحسن میں ہے:

"وإذا اشترى الرجل فصا على أنه ياقوت فإذا هو غير ذلك فإن البيع فاسد وعلى المشتري قيمته إذا استهلكه وكذلك لو اشترى ثوبا على أنه هروي فإذا هو من صنف آخر لأن البيع لم يقع على هذا قط."

(باب البيوع الفاسدة، ص:96، ط:مطبعة جامعة القاهرة)

البحر الرائق میں ہے:

"فالحاصل أن كل جهالة تفضي إلى المنازعة مبطلة فليس يلزم أن ما لايفضي إليها يصح معها بل لا بد مع عدم الإفضاء إليها في الصحة من كون المبيع على حدود الشرع ألا ترى أن المتبايعين قد يتراضيا على شرط لا يقتضيه العقد وعلى البيع بأجل مجهول كقدوم الحاج ونحوه ولايعتبر ذلك مصحّحًا، كذا في فتح القدير."

(کتاب البیع، ج:5، ص:328، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505102142

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں