بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روح کا واپس آنا


سوال

کیا کسی  حادثے  میں  مرے  ہوئے  کی روح  کو کسی عمل  سے  حا ضر  کیا  جا سکتا  ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مرنے کے بعد جسم سے جدا ہوکر روح برزخ میں چلی جاتی ہے اور قیامت تک وہی رہے گی،اللہ تعالی کی طرف  سے کسی کو  اگرکسی مرے ہوئے کی روح حاضر کرنے کی  اجازت مل جائے تو  یہ حق تعالی کی قدرت سے خارج نہیں، البتہ  ایسا ہونا  نہ تو قرآن کریم کی کسی آیت سے ثابت ہے اور نہ ہی کسی   حدیث سے۔

قال اللہ تعالی فی عیسی علیہ السلام:

"وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ". (آل عمران: 49)

ترجمہ :" اور زندہ کردیتا ہوں مردوں کو خدا کے حکم سے ۔" (بیان القرآن)

تفسیر مظہری میں ہے:

"قلنا: وجه التطبيق أنّ مقرّ أرواح المؤمنين في عليين أو في السماء السابعة و نحو ذلك كما مر و مقرّ أرواح الكفار في سجين، و مع ذلك لكل روح منها اتصال لجسده في قبره لايدرك كنهه إلا الله تعالى."

(التفسیر المظھری، 225/10، ط: حافظ کتب خانہ کوئٹہ)

فتاوی حدیثیہ  میں ہے:

"و علم مما مر عن ابن العربي أن أكثر ما تقع رؤیته ﷺ بالقلب ثمّ بالبصر لكنها به لیست كالرؤیة المتعارفة، و إنما هي جمعیة حالیة و حالیة برزخیة، و أمر وجداني، فلایدرك حقیقته إلا من باشرہ كذا قیل ... و علیه یحمل قول الغزالي: لیس المراد أنه یری جسمه و  بدنه بل مثالًا له، صار ذلك المثال آلة یتأدی به المعنی الذي في نفسه، و الآلة أما حقیقیة و أما خیالیة، و النفس غیر الخیال المتخیل، فما رآہ  من الشکل لیس هو روح المصطفی ﷺ و لا هو شخصه، بل هو مثال له علی التحقیق."

(کتاب الفتاوی الحدیثیۃ، 394، ط:  قدیمی)

اشرف الجواب میں ہے:

’’اگر مردہ منعم علیہ ہے تو اسے یہاں آکر  لپٹتے  پھرنے کی کیا ضرورت ہے اور اگر معذب ہے تو فرشتگان عذاب کیوں کر چھوڑ سکتے ہیں۔‘‘

(اشرف الجواب، 163/1، رحمانیہ لاہور)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال (630): مرنے کے بعد جسم سےنکلنے پر کہاں قیام کرتی ہے؟ اس کا تعلق دنیا والوں کے ساتھ رہتا ہے یا نہیں؟ دنیا میں جو اس نے اچھے یا برے اعمال  کیے ہیں اس کا بدلہ قیامت سے پہلے ملتا ہے یا نہیں؟

الجواب:۔۔۔۔شرح الصدور میں جلال الدین سیوطی نے اس مسئلہ پر تفصیلی کلام کیا ہے کہ مرنے کے بعد دنیا والوں سے اتنا تعلق رہتا ہے کہ جو ثواب پہنچایا جائے وہ پہنچ جاتا ہے اور زندوں کے اچھے اور برے اعمال جن کا تعلق اس میت سے ہو ان کی بھی میت کو اطلاع کرائی جاتی ہے، کذا فی کتاب الروح لابن قیم الجوزیۃ۔  باقی اس روح کا اپنے دنیا والے مکان پر واپس آنا کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں۔۔۔ "۔

(فتاوی محمودیہ ، مرنے کے بعد روح کا مقام، جلد اول، صفحہ599،ط: ادارہ الفاروق کراچی )

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال(323): ایک مرحوم بزرگ اپنے مرنے کے پانچ سو برس بعد زندہ انسانوں کی طرح  ایک شخص کو ملے اور ایک خط کا جواب لکھ کر سنایا ۔ کیا ایسا واقعہ پیش آسکتا ہے یا نہیں؟الجواب : اللہ پاک کی طرف سے کسی کو اگر اجازت مل جائے تو قدرت حق سے یہ چیز خارج نہیں لیکن اس قسم کے واقعات مثالی طور پر قرآن پاک اور احادیث شریف میں مذکور نہیں۔۔۔۔۔۔"

(فتاوی محمودیہ ، میت کا مدت دراز کے بعد سامنے آکر ملاقات کرنا ، جلد اول، صفحہ617،ط: ادارہ الفاروق کراچی )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102210

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں