بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رکوع کے بعد(یعنی قومہ میں)ہاتھ باندھنے کا حکم


سوال

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بعض علماءحنفیہ کا قول ہے کہ رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھنا چاہیے، میں اس قول کی توثیق اور کوئی حوالہ جاننا چاہتا ہوں۔

جواب

نماز کے دوران ہاتھ باندھنے سے متعلق احادیث مبارکہ میں غور کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نماز کےدوران ہاتھ باندھناایسے قیام کے ساتھ خاص ہےجوقراروالا مستقل ہو، جیسے ثناء، فاتحہ اور سورت کے لیے قیام ہےیا نماز جنازہ کے لیے قیام ہے، جب کہ رکوع کے بعد والا قیام مستقل اور قرار والا قیام شمار نہیں ہوتا،اس لیے اسے قیام کے بجائےقومہ کہا جاتا ہے،لہٰذااسی بناء پر فقہائے امت فرماتے ہیں کہ رکوع کےبعد کھڑے ہونے کی حالت میں ہاتھ باندھنا سنت نہیں ہے بلکہ ہاتھوں کو کھلا چھوڑنے میں سنت نبوی کی رعایت ہے کیوں کہ نماز کےدوران جو اعتدال مطلوب ہے یہاں اس کی رعایت اسی میں ہے کہ ہاتھوں کو کھلا چھوڑا جائے ۔

لہٰذابالاذکردہ پوری تفصیل یہ احناف کامحقق اورمفتیٰ بہ قول ہے،باقی سائل کایہ کہناکہ بعض علماءحنفیہ کاقول ہےکہ رکوع سےکھڑےہونےکےبعد(یعنی قومہ میں) دائیں ہاتھ کوبائیں پررکھناچاہیے،اس قول کی طرف صاحب البحرالرائق علامہ  زين الدين رحمہ اللہ نے اپنی کتاب"البحرالرائق"میں اشارہ کیاہے،لیکن احناف کےہاں وہ مفتیٰ بہ قول نہیں ہے،کیوں کہ صاحب البحرالرائق نےرکوع سے کھڑےہونےکےبعد(یعنی قومہ میں)ہاتھ چھوڑنے پراجماع ذکرکیاہے،اوریہی قول احناف کےہاں مفتیٰ بہ بھی ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(له قرار فيه ذكر مسنون ‌فيضع ‌حالة ‌الثناء، وفي القنوت وتكبيرات الجنازة لا) يسن (في قيام بين ركوع وسجود) لعدم القرار (و) لا بين (تكبيرات العيد) لعدم الذكر ما لم يطل القيام فيضع."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب صفة الصلاة، ص:67، ط: دار الكتب العلمية)

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"‌وضع ‌اليدين والأصل فيه أن كل قيام فيه ذكر مسنون يعتمد فيه أعني اعتماد يده اليمنى على اليسرى وما لا فلا فيعتمد في حالة القنوت وصلاة الجنازة ولا يعتمد في القومة عن الركوع وبين تكبيرات العيدين الزوائد وهذا هو الصحيح وعند أبي علي النسفي والإمام أبي عبد الله وغيرهما يعتمد في كل قيام سواء كان فيه ذكر مسنون أو لا."

(كتاب مواقيت الصلاة، باب وضع اليمنى على اليسرى في الصلاة، ج:5، ص:279، ط: دار إحياء التراث العربي)

البحر الرائق میں ہے:

"في أن القومة ليس فيها ذكر مسنون وذكر في شرح منية المصلي أن شيخ الإسلام ذكر في شرح كتاب الصلاة أنه يرسل في القومة التي تكون بين الركوع والسجود على قولهما كما هو قول محمد وذكر في موضع آخر أن على قولهما يعتمد فإن في هذا القيام ذكرا مسنونا، وهو التسميع أو التحميد وعلى هذا مشى صاحب الملتقط....وعلى هذا فالمراد من الإجماع المتقدم اتفاق أبي حنيفة وصاحبيه على الصحيح وصحح في البدائع."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج:1، ص:327، ط: دار الكتاب الإسلامي)

درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

"(قوله ويرسل يديه في قومة الركوع) قال في البحر وهذا بالإجماع ثم قال، وذكر شيخ الإسلام أنه ‌يرسل ‌في ‌القومة ‌التي ‌تكون ‌بين ‌الركوع ‌والسجود على قولهما كما هو قول محمد، وذكر في موضع آخر أنه على قولهما يعتمد فإن في هذا المقام ذكرا مسنونا وهو التسميع أو التحميد وعلى هذا مشى صاحب الملتقط اهـ. ثم قال وعلى هذا فالمراد من الإجماع المتقدم اتفاق أبي حنيفة وصاحبيه على الصحيح."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل في الإمامة، ج:1، ص:67، ط: دار إحياء الكتب العربية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں