بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

روح اور نفس میں کیا فرق ہے؟


سوال

روح اور نفس میں کیا فرق ہے؟

جواب

 اللہ تعالٰی نے  انسان میں دو مختلف قوتیں پیدا کی ہیں،  ایک کا نام روح ہے اور دوسری کا نام نفس ہے، روح خیر ، نیکی اور بھلائی کا منبع اور سرچشمہ ہے اور نفس شہوات،  اور ہر قسم کی برائی کی جڑ ہے، روح اور نفس کے درمیان مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ  اللہ نے بہت عمدہ  اور مفصل انداز  میں فرق بیان کیا ہے،  مولانا محمد ادریس کاندهلوی  صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں:

"علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ روح اور نفس دونوں ایک ہی شئے ہیں یعنی روح اور نفس ایک ہی شی کے دو نام ہیں یا دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں ، ہر ایک کی حقیقت اور ماہیت جدا ہے،  بعض علماء کے نزدیک نفس اور روح ایک ہی شئے ہیں، مگر علماء محققین کے نزدیک روح اور نفس دو علیحدہ علیحدہ حقیقتیں ہیں ، روح  انسان کو آخرت کی طرف بلاتی ہے اور نفس دنیا کی طرف بلاتا اور کھینچتا ہے،نفس کو سوائے کھانے اور پہننے کے اور کچھ معلوم نہیں، نفس، لذات اور شہوات کے اعتبار سے کتا ہے اور غیظ و غضب کے اعتبار سے درندہ ہے اور مکرو فریب کے اعتبار سے شیطان کا حقیقی بھائی معلوم ہوتا ہے (واللہ اعلم) استاد ابوالقاسم قشیری قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ اخلاق حمیدہ کے معدن اور منبع کا نام روح ہے۔ اور اخلاق ذمیمہ کے معدن اور سرچشمہ کا نام نفس ہے، مگر جسم لطیف ہونے میں دونوں مشترک ہیں جیسے ملائکہ اور شیاطین جسم لطیف ہونے میں دونوں شریک ہیں فرق صرف یہ ہے کہ ملائکہ نورانی ہیں نور سے پیدا ہوتے ہیں اور شیطان ناری ہیں نارسے پیدا ہوتے ہیں ۔ حافظ ابن عبد البر نے تمہید شرح موطا میں اس بارے میں ایک حدیث نقل کی ہے وہ یہ ہے :

"إن الله خلق آدم جعل فيه نفسا وروحا فمن الروح عفافه وفهمه وحلمه  وسخاؤه وفاؤه ومن النفس شهوته وطيشه و سفهه و غضبه ونحو هذا كذا في الروض  الأنف شرح سيرة ابن هشام ص: 197، ج: 1."

ترجمہ:اللہ تعالٰی نے آدم علیہ السلام  کو پیدا کیا اور اُن میں  نفس اور روح کوودیعت رکھا، پس عفت اور فہم  اور حلم اور سخاوت اور وفا اس قسم کے پاکیزہ اخلاق اور صفات روح سے نکلتے ہیں اور شہوت اور طیش  اور سفاہت  اور غیظ و غضب وغیرہ اس قسم کے تمام اخلاق رذیلہ  نفس سےظاہر ہوتے ہیں (روض الانف)

 یہ حدیث اس بات پر صاف طور پر دلالت کرتی ہے کہ آدم کی فطرت میں یہ دو متضاد چیزیں پیوست کر دی گئی ہیں ، ایک روح جو جنسِ ملائکہ سے ہے اور ایک نفس جو جنسِ شیاطین سے ہے،  بلکہ بقول بعض اولیاء نفس شیطان کا جڑواں بھائی ہے، جس طرح قرآن حکیم نے شیطان کو انسان کا دشمن بتایا ہے اسی طرح حدیث میں نفس کو سب سے بڑا دشمن بنایا ہے جیسا کہ ایک ضعیف الاسناد حدیث  میں ہے: أعدی عدوک نفسک التي بين جنبيك۔ اے انسان! تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے جو تیرے دو پہلوؤں کےدرمیان واقع ہے،  اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہو ئیں: ایک تو یہ کہ نفس انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ شیطان تو اعوذ باللہ پڑھنے سے بھاگ جاتا ہے مگر نفس اعوذ بِاللہ پڑھنے سے بھی نہیں بھاگتا، نیز شیطان جب انسان کو گمراہ کرتا ہے تو نفس کے واسطے سے گمراہ کرتا ہے، شیطان اپنے کام میں نفس کا محتاج ہے اور نفس گمراہ کرنے میں شیطان کا محتاج نہیں اس لیے آپ  علیہ السلام نے نفس کو بڑا دشمن قرار دیا ۔

حضرت شیخ فرید الدین عطار فرماتے ہیں:

نفس و شیطان زد کریما راهِ من

رحمتت باشد شفاعت خواه من

شیخ فرید الدین نے نفس کو شیطان سے پہلے ذکر کیا کہ افواہ میں نفس شیطان کا محتاج نہیں ، شیطان کو گمراہ کرنے والا اسکا نفس ہے، کسی شیطان نے شیطان کو گمراہ نہیں کیا،  بہر حال نفس انسان کا دشمن ہے اور روح انسان کی دشمن نہیں؛ اس لیے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ روح اور نفس دو الگ الگ چیزیں ہیں نیز احادیث میں جہاد کی بکثرت ترغیب مذکور ہے اور ایک حدیث میں جہاد نفس کو جہاد اکبر فرمایا کیونکہ نفس قریبی دشمن ہے اور دارالحرب کے کافر دور کے دشمن ہیں اور حق تعالٰی کا حکم یہ ہے: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُوْنَكُمْ مِنَ الكَفَّارِ  یعنی اے مسلمانو! قریبی کافروں سے جہاد و قتال کرو ،اس لیے اس قریبی دشمن (نفس) سے جہاد کرنا جہادِ اکبر ہوا،  بہر حال قرآن اور حدیث میں نفس سے جہاد کا حکم آیا ہے روح سے جہاد کا حکم نہیں آیا اور قرآن اور حدیث نے تمام اخلاق ذمیمہ کی جڑ ہوائے نفس کو قرار دیا ہے کہ نفس انسان کو لذات اور شہوات کی طرف دعوت دیتا ہے، حق تعالٰی کے اوامر و نواہی کی پرواہ نہیں کرتا،  لہذا معلوم ہوا کہ نفس اور روح دو الگ الگ چیزیں ہیں روح جنسِ ملائکہ سے ہے اور نفس جنسِ شیطان سے ہے روح نورانی اور روحانی ہے اور نفس ناری ہے جس میں کچھ آمیزش (طین) گارے اور مٹی کی بھی ہے اور یہ انسان تو ایک پیکر خاکی ہے،عجیب معجون مرکب ہے کہ مادہ روحانی اور مادہ شیطانی کو ملا کر بنایا گیا ہے، کبھی خیر کی طرف مائل ہوتا ہے اور کبھی شر کی طرف عقل جس کا محل قلب ہے کما قال تعالٰی :لَهُمْ قُلُوبٌ لایَعقلُون بِهَا. يا بقول بعض کہ عقل کا محل دماغ ہے وہ روح کی معین اور مددگار ہے اور نفس شیطان کا مددگار بلکہ اس کا نمائندہ اور اس کا قائم مقام ہے ۔۔۔۔  دوسری بات جو حدیث "أعدى  عدوك نفسك التي بين جنبيك" سے معلوم ہوئی وہ یہ ہے کہ نفس کا مقام دو پہلوؤں کے درمیان ہوتا ہے اس سے بھی روح کا نفس سے مغایر ہونا ثابت ہوا؛ اس لیے کہ روح سر سے پیر تک تمام اعضاء بدن میں جاری و ساری ہے پہلو کے ساتھ مخصوص نہیں، بہر حال نفس اور روح الگ الگ حقیقتیں ہیں،  البتہ کتاب وسنت میں نفس کا اطلاق روح پر بھی آیا ہے اس لیے دونوں کے ایک ہونے کا اشتباہ ہو گیا ۔"

(  معارف القرآن للشیخ محمد ادریس  الکاندھلوی،  520،521/4، ط: مکتبۃ المعارف  شہداد پور سندھ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404102068

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں