بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا علیحدہ رہائش کا مطالبہ کرنا


سوال

میری شادی کو پانچ سال ہوگئے اورمیرے دوبچے بھی ہیں ،ان پانچ سالوں میں میری بیوی کئی دفعہ اپنے میکے چلی گئی اوردو دفعہ اس کے مطالبہ پر میں علیحدہ گھر بھی لے کر دیااوروہاں اس کو تمام خرچ پورے کیےلیکن وہاں علیحدہ ہونے کے باوجود بھی اپنے میکے میں  ناراض ہوکر چلی جاتی،اب پچھلے ڈیڑ ھ سال سے اپنے میکے میں اوربچے بھی اس کے پاس ہیں اس نے عدالت میں میرے خلاف کیس بھی کیا ہواہے اورمیرے اورمیری والدہ اوربہن کے خلاف ایف آئی آر بھی کروائی،خلاصہ یہ ہے کہ اب اس کا عدالت میں مطالبہ یہ ہے کہ مجھے علیحدہ گھر چاہیے میں آپ کے والدین کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ،اس کے مطالبہ پر میں نے مہر کی رقم چیک کی صورت مین دے دیا،اب میرا سوال یہ ہے کہ میری اتنی استطاعت نہیں کہ میں علیحدہ گھر لے کردے سکوں باوجود اس کے کہ وہ پہلے بھی علیحدہ نہ رہ سکی اورمیرے والدین بھی بوڑھے ہیں،کیا شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ بیوی کے مطالبہ پر والدین کو چھوڑ کر علیحدہ گھر دیاجائے،جب کہ میری قدرت نہیں ۔

جواب

واضح رہے کہ بیوی کی  جانب سے علیحدہ گھر کا مطالبہ کرناشرعاًجائز نہیں ،بیوی علیحدہ گھرکا مطالبہ کرنے کا شرعاً حق نہیں رکھتی،بیوی نکاح کے بعد ایک ایسے کمرہ کا مطالبہ کرسکتی  ہےجس میں   بیوی کی اجازت کے بغیر کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہ ہو اوراس میں اپنا سامان رکھ سکے  اور غسل خانہ،  بیت الخلاء اور علیحدہ باورچی خانہ کا بھی انتظام ہو، مذکورہ تفصیل کی روسے  صورت مسئولہ میں سائل کی بیوی کا اس کے ساتھ نہ رہنا اورسائل کے گھر کو چھوڑکرچلے جاناکہ مجھے علیحدہ گھر چاہیےشرعاً جائز نہیں ،سائل  اپنی بیوی کو اوپر ذکرکردہ تفصیل کے مطابق علیحدہ کمرہ دینے کا پابند ہے ۔

باقی سائل پر یہ لا زم ہے  کہ وہ  اپنے والدین اوراہل وعیال ( دونوں کے حقوق کی رعایت رکھے کسی کی حق تلفی نہ کرے) تاہم یہ بھی واضح  رہے کہ حتی  الامکان اپنے گھر کو آباد رکھنے اوربسانے کی کوشش کرنا عقلمندی اوردانش مندی  کی علامت ہے ،سائل اپنے گھر کو آباد رکنےکی کوشش کرے اور اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے دونوں خاندان  کے معزز اورسمجھ دار بزرگ  افراد کے ذریعے  رابطہ  کرے  اوراللہ تعالی  سے دعا بھی کرتارہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر.(قوله ومفاده لزوم كنيف ومطبخ) أي بيت الخلاء وموضع الطبخ بأن يكونا داخل البيت أو في الدار لا يشاركها فيهما أحد من أهل الدار."

(كتاب الطلاق،باب النفقة،مطلب في مسكن الزوجة،600/3،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله و أهلها إلا أن تختار ذلك كذا في العيني شرح  الكنز."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثاني في السكني، ١/ ٥٥٦، ط: دار الفكر)

فتاوى شامی میں ہے:

"إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك".

 (مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد) 

حدیث پاک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي".

(مشکاۃ المصابیح،ج:2۔ص:281،،باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

"ترجمہ:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں  بہترین ہوں۔(مظاہر حق)"

 

حدیث پاک میں ہے:

"عن أبي أمامة، أن رجلا قال: يا رسول الله، ما حق الوالدين على ولدهما؟ قال: «هما جنتك ونارك."

(سنن ابن ماجه ،ج: 2، ص: 1208 ،كتاب الأدب، باب برالوالدين، ط: دارإحياء الكتب العربية)

"ترجمہ:"ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا : اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ دونوں تیری جنت یا دوزخ ہیں" یعنی ان کی اطاعت و خدمت جنت میں لے جاتی ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی جہنم میں لے جاتی ہے۔"

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101538

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں