بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

روڈ ایکسیڈنٹ میں مرنے والا شہید/ عورتوں کا قبرستان جانا


سوال

میرا  اِکلوتا بیٹا (۱۵سال کی عمرمیں) قرآن پاک حفظ کے دوران ایکسیڈنٹ کے بعد اس دنیا سے چلاگیا ہے اور اس کے قاری اساتذہ نے شہید ہونے کی شہادت دی ہے،آپ بیان کرسکتے ہیں کہ میرے بیٹے کے کیا درجات ہوں گے؟ اور وہ مجھے دیکھ سکتا ہے اور میرے لیے دعا کرتا ہوگا؟

کیا میں اپنے بیٹے کی قبر پر جاسکتی ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ بنیادی طور پر شہید  کی دو قسمیں ہیں:حقیقی اور حکمی۔

حقیقی شہید وہ کہلاتا ہے جس پر شہید کے دنیوی اَحکام لاگو ہوتے ہیں  کہ اس کو غسل وکفن نہیں دیا جائے گا اور جنازہ پڑھ کر ان ہی کپڑوں میں دفن کر دیا جائے جن  میں شہید ہوا ہے، مثلاً اللہ کے راستہ میں شہید ہونے والا، یا کسی کے ہاتھ ناحق قتل ہونے والا،  بشرطیکہ وہ بغیر علاج معالجہ اور وصیت وغیرہ موقع پر ہی دم توڑجائے۔

اور حکمی شہید وہ کہلاتا ہے، جس کے بارے میں احادیث میں شہادت کی بشارت وارد ہوئی ہو، ایسا شخص آخرت میں تو شہیدوں کی فہرست میں شمار کیا جائے گا، البتہ دنیا میں اس پر عام میتوں والے اَحکام جاری ہوں گے،  یعنی اس کو غسل دیا جائے گا اور کفن بھی پہنایا جائے گا۔

اگر کسی  کا انتقال  ایکسیڈنٹ میں ہوا ہے،  تو  دنیوی اَحکام کے اعتبار سے تو  وہ ’’شہید‘‘  نہیں کہلائے گا، لیکن حکماً  یعنی آخرت کے اعتبار سے ’’شہید‘‘  کہا جاسکتا ہے،  یعنی  آخرت میں اسے ’’شہید‘‘ جیسا اجر ہی ملے گا۔

لہذا آپ کا بیٹا جب علم کے حصول کے دوران ایکسیڈنٹ میں انتقال کرگیا تو  وہ آخرت میں شہداء میں اٹھایا جائے گا اور اس کو شہیدوں والا اجر ملے گا۔ نیز جب کوئی اس کی قبر پر جا کر اس کو سلام کرے گا تو اس کو اس آنے والے کا علم ہوگا اور وہ اس کے سلام کو سن کر جواب بھی دے گا اوراپنے رشتے داروں  کے لئے دعا بھی کرے گا۔

عورتوں کے قبرستان جانے کا حکم یہ کہ  عورتوں  کے قبرستان میں  جانے سے اگر غم تازہ ہو اور وہ بلند آواز سے روئیں تو ان کے لیے  قبرستان جانا  گناہ ہے؛ کیوں کہ حدیث میں ایسی عورتوں پر لعنت آئی ہے جو قبرستان جائیں؛ تاکہ غم تازہ ہو ۔نیز چوں کہ ان میں صبر کم ہوتا ہے، اس لیے گھر ہی سے ایصال ثواب کرنا چاہیے۔اگر کوئی بوڑھی عورت عبرت اور تذکرہ آخرت کے لیے قبرستان جائے تو اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ وہ جزع فزع نہ کرے، اور جوان عورت کے لیے تذکرہ موت و آخرت کی نیت سے جانے میں بھی کراہت ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «‌مَنْ ‌خَرَجَ ‌فِي ‌طَلَبِ ‌العِلْمِ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى يَرْجِعَ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

(الجامع السنن للترمذي، ابواب العلم، ‌‌باب فضل طلب العلم، رقم الحديث: 2647)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَعُدُّونَ الشَّهِيدَ فِيكُمْ؟» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللهِ ‌فَهُوَ ‌شَهِيدٌ، قَالَ: «إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ»، قَالُوا: فَمَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللهِ ‌فَهُوَ ‌شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي سَبِيلِ اللهِ ‌فَهُوَ ‌شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي الطَّاعُونِ ‌فَهُوَ ‌شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي الْبَطْنِ ‌فَهُوَ ‌شَهِيدٌ»."

(الصحيح لمسلم،كتاب الإمارة، باب بيان الشهداء،  رقم الحديث: 165 - (1915))

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"بلغني أن الموتى يعلمون بزوارهم يوم الجمعة ويوما قبله ويوما بعده وقالابن القيم الأحاديث والآثار تدل على أن الزائر متى جاء علم به المزور وسمع سلامه وأنس به ورد عليه وهذ ا عام في حق الشهداء وغيرهم وأنه لا توقيت في ذلك."

( حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، باب أحكام الجنائز، ‌‌فصل في زيارة القبور، ص:620،بیروت)

الدرالمختار میں ہے:

"وكل ذلك في ‌الشهيد ‌الكامل، وإلا فالمرتث شهيد الآخرة وكذا الجنب ونحوه، ومن قصد العدو فأصاب نفسه، والغريق والحريق والغريب والمهدوم عليه والمبطون والمطعون والنفساء والميت ليلة الجمعة وصاحب ذات الجنب ومن مات وهو يطلب العلم، وقد عدهم السيوطي نحو الثلاثين."

(الدر المختار مع رد  المحتار، كتاب الصلوة، باب الشهيد، 252/2، سعید)

منحۃ الخالق علی البحرالرائق  میں ہے:

"(قوله: وقيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلاتجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد."

(منحة الخالق على البحر الرائق،210/2، دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100860

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں