بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رخصتی سے پہلے طلاق دینے کا حکم


سوال

میرے بیٹے کا نکاح ہوچکا تھا ، اس دوران وہ جیل چلا گیا ، اس کے بعد لوگوں نے اس کو اپنی منکوحہ لڑکی کے خلاف ورغلا یا ، جس پر لڑکے نے کہا کہ :"یہ لڑکی مجھ پر طلاق ہے " ، بقول لڑکے کے والدین کے لڑکے نے یہ جملہ ایک مرتبہ کہا ، جبکہ دیگر رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ چھ سات مرتبہ کہا ہے ، ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی ہے ۔

سوال یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں طلاق ہوئی ہے یا نہیں ؟ اب دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں ؟تفصیلی جواب عنایت فرمائیں ۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سائل کے بیٹے نے یہ جملہ  کہ : "یہ لڑکی مجھ پر طلاق ہے " رخصتی سے پہلے کہا ہے  ، اس لیے اس جملے سے  سائل کے بیٹے کی بیوی پرصرف  ایک طلاق  بائن واقع ہو ئی  ہے، نکاح ختم ہو گیا ہے ۔ اگرچہ اس نے مذکورہ جملہ چھ سات مرتبہ ہی کیوں نہ کہا ہو  ۔

اب اگر دونوں  ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو دو گواہوں کی موجودگی میں  نیامہرمقرر کرکےدوبارہ نکاح کرسکتے ہیں ، نکاح کی صورت میں آئندہ کے لیے سائل کے بیٹے کےپاس  دو طلاق کا اختیار ہوگا۔ 

«الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية»  میں ہے :

"(الفصل الرابع في الطلاق قبل الدخول) إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق۔"

(الفصل الرابع في الطلاق قبل الدخول : 1 / 373 ، ط : المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"فإن كانا حرين فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد۔"

(فصل في حكم الطلاق البائن،3/187ط: دار الكتب العلمية)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100277

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں