ایک صاحب نے اپنی بیوی کو طلاق رجعی دی ،جس کے الفاظ یہ تھے کہ’’ میں ایک طلاق رجعی دیتا ہوں‘‘،اس طلاق دینے کے بعد لڑکی کی اپنے شوہر سےدو یا تین مرتبہ ضرورت کی بات ہوئی ہے،اور شوہر طلاق دینے کے بعد بیوی کی منت سماجت کرتا رہا کہ’’ گھر آجاؤ‘‘،لیکن بیوی نہیں مانی تھی،شوہر نے رجوع کے واضح الفاظ ادا نہیں کیے،بس یہ بول رہا تھا کہ ’’واپس آجاؤ‘‘اب عورت کی عدت بھی ختم ہوچکی ہےتو پوچھنایہ ہےکہ شوہر کے مذکورہ الفاظ سے رجوع ہوگیا ہےیا نہیں؟
بصورتِ مسئولہ شوہر کا اپنی بیوی سے یہ الفاظ کہ’’ میں ایک طلاق رجعی دیتا ہوں‘‘ کہنے سے بیوی پرایک طلاق رجعی واقع ہوچکی تھی،اس کے بعد جب شوہرنے عدت کی دورانیہ ميں بیوی کی منت سماجت کرکےمذکورہ جملےکہے تھے کہ’’ گھر آجاؤ‘‘،’’واپس آجاؤ‘‘ یہ الفاظ عرض اور التماس کےالفاظ ہیں، لہٰذ اان سے رجوع نہیں ہوا،البتہ ان الفاظ کے کہتے وقت اگر شوہر کی نیت یہ ہو کہ واپس آجاؤ اس لیے کہ میں رجوع کرچکا ہو ں تو اس صورت میں شوہر کا جملہ کنایہ ہوگااور کنایہ میں اگر شوہر کی نیت رجوع کی ہو تورجوع ہوجاتا ہےلہذا مذکورہ الفاظ کہتے وقت اگر شوہر کی نیت بیوی سے رجوع کرنا تھا تو رجوع ہوگیا ہے، دونوں کا نکاح بدستوربرقرار ہے ،تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر اس کی نیت میں یہ نہیں تھا محض عرض اور التماس بیوی کو کررہا تھا تو اس صورت میں تجدید نکاح کیے بغیر ساتھ نہیں رہ سکتے۔
البحر الرائق میں ہے:
"وأما ركنها فقول أو فعل فالأول صريح، وكناية أما الأول فراجعتك وراجعت امرأتي، وجمع بينهما ليفيد ما إذا كانت حاضرة فخاطبها أو غائبة، وارتجعتك ورجعتكورددتك، وأمسكتك ومسكتك فيصير مراجعا بلا نية، ومنه النكاح والتزوج.
وأما الكناية فنحو أنت عندي كما كنت أو أنت امرأتي فيتوقف على النية."
(کتاب الطلاق،باب الرجعة،55/4، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتح القدیر میں ہے:
قوله ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة) إمساك على الوجه الذي كان أولا وهو الملك على وجه لا يزول بانقضاء العدة ولا ملك بعد العدة ليستدام."
(کتاب الطلاق، باب الرجعة، 159/4، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي)
کتاب الأصل لمحمد بن الحسن میں ہے:
" وإذا طلق الرجل امرأته واحدة يملك الرجعة، للعدة أو هي في الحيض أو بعد الجماع، فالطلاق واقع عليها، وهو يملك الرجعة ما لم تنقض عدتها، فإذا انقضت عدتها فهو خاطب من الخطاب.
وإذا أراد الرجل أن يراجع امرأته قبل انقضاء العدة فالأحسن في ذلك أن لا يغشاها حتى يشهد شاهدين على رجعتها. وليس في الرجعة مهر ولا عوض قليل ولا كثير."
( کتاب الطلاق، باب الرجعة، 396/4، ط: دار ابن حزم، بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101149
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن