ایک شخص کے پاس مثلاً دو لاکھ روپے ہیں اور وہ ان کے بدلے ریال خریدلیتا ہے، پھر چند ماہ بعد ریال کا ریٹ بڑھ جاتا ہے تو یہ ریال دے کر دوبارہ پاکستانی کرنسی لے لیتا ہے تو یہ جائز ہے؟
صورت ِ مسئولہ میں ریال خرید کر رکھنا اور پھر روپے کے مقابلے میں اس کی قیمت زیادہ ہوجانے پر اس فروخت کرکے نفع کمانا جائز ہے، البتہ اس خریدوفروخت کا ہاتھ در ہاتھ یعنی نقد سودا ہونا ضروری ہے، اس لیے کہ کرنسی کی خریدوفروخت (خواہ ایک ملک کی کرنسی ہو یا دو مختلف ملکوں کی کرنسی ہو) بیع صرف کہلاتی ہے اور بیع ِ صرف میں ادھار معاملہ جائز نہیں ہے۔
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"(هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل ) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء.
(قوله: أي ما خلق للثمنية) ذكر نحوه في البحر. ثم قال: وإنما فسرناه به ليدخل فيه بيع المصوغ بالمصوغ أو بالنقد، فإن المصوغ بسبب ما اتصل به من الصنعة لم يبق ثمنا صريحا، ولهذا يتعين في العقد ومع ذلك بيعه صرف اهـ.
(قوله: بالبراجم) جمع برجمة بالضم: وهي مفاصل الأصابع ح عن جامع اللغة. (قوله: لا بالتخلية) أشار إلى أن التقييد بالبراجم للاحتراز عن التخلية، واشتراط القبض بالفعل لا خصوص البراجم، حتى لو وضعه له في كفه أو في جيبه صار قابضا.
(قوله: قبل الافتراق) أي افتراق المتعاقدين بأبدانهما، والتقييد بالعاقدين يعم المالكين والنائبين، وتقييد الفرقة بالأبدان يفيد عموم اعتبار المجلس."
(الدر مع الرد ،(5/ 257 - 259) كتاب البيوع، باب الصرف،ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144408101951
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن